ہندوستان میں جرائم کے قومی بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر ۲۲ منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے، مگر کیا اس کا ذمیدار بالی وڈ میں پیش کیا جانے والے خواتین کا کردار ہے؟دسمبر۲۰۱۲کو دہلی میں ایک ۲۳ سالہ طالبہ کے ساتھ چلتی بس میں ہونے والے خوفناک گینگ ریپ کا واقعہ ان کی موت کا باعث بنا اور اس کے حوالے سے دنیا بھر میں شہ سرخیاں لگیں اور ہندوستان بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔اس پر بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان نے ٹویٹ کی کہ ’میں معذرت خواہ ہوں کہ میں اس معاشرے اور ثقافت کا حصہ ہوں۔ میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں ایک مرد ہوں۔‘اس کے بعد ہندوستانمیں گینگ ریپ کے کئی واقعات سامنے آئے جن میں مغربی بنگال میں ایک ۲۰ سالہ خاتون سے گینگ ریپ کا واقعہ بھی شامل تھا جن سے گاؤں کی پنچایت نے سزا کے طور پر خاتون کو گینگ ریپ کرنے کا حکم دیا تھا۔جہاں بھارتی سینیما میں خواتین کے کردار کی نمائش میں بہتری آ رہی ہے وہیں ہدایت کارہ میرا نائر اس سے خوش نظر نہیں آتیں جن کے خیال میں یہ خواتین کو بہت نیچا کر کے دکھاتا ہے۔شارہ رخ خان کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستانی سینما خواتین کو نیچا دکھانے میں کردار ادا کرتا ہے‘میرا کا کہنا ہے کہ ’بہت سی فلموں میں خواتین کو روایتی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے جس میں ایک سیکسی خاتون ہوتی ہے جو رجھانے اور لبھانے کی خاطر ناچتی گاتی پھرتی ہے اور اپنی جنسی کشش کو ایسے انداز میں ابھارتی ہے جو فحاشی کی حدوں کو چھوتا ہے۔‘ان میں سے بہت زیادہ پریشانی کا موجب مقبول ترین ’آئٹم نمبر‘ بنتے ہیں، جن کا انحصار ناچ گانے، جنسی رجھاؤ اور لبھاؤ والی موسیقی پر ہوتا ہے۔میرا نائر کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے گانوں پر مجھے اعتراض ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کے نتیجے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی باعزت رشتہ سامنے آتا ہے۔‘بھارتی اداکارہ تلوتما شوم کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ بالی وڈ کیسے خواتین کو پیش کرتا ہے بلکہ ’یہ کیسے مردوں کو پیش کرتا ہے۔ یہ مکمل طور پر مردانہ دنیا ہے، جارحیت پسند اور قدامت پسند دنیا جو روایتی ہے اور مردوں کے لیے بھی اسی طرح بری ہے جیسا کہ خواتین کے لیے۔‘اسی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ جب بھارتی خواتین جنسی پیش قدمی سے انکار کرتی ہیں تو اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہتیں۔’گذشتہ مہینے میں نے ایک پرانی فلم شعلے تھری ڈی دیکھی جس میں ایک سین کے دوران ایک خاتون ایک مرد کی جنسی پیش قدمی کو سختی سے رد کرتی ہے مگر بالآخر وہ اس کے سامنے ہار مان لیتی ہے اور یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ انکار کر رہی ہے مگر ان کے انکار میں اقرار چھپا ہے۔‘عامر خان سمجھتے ہیں کہ ’ایسی فلمیں ہیں جو بعض چیزوں کو فیشن ایبل یا اچھی چیز بنا کر پیش کرتی ہیں۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے جو ہماری سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔‘ایسا اکثر بھارتی فلموں میں دکھایا جاتا ہے اور بالی وڈ کی کئی فلموں میں مردوں کی جانب سے خاتون کا پیچھا کرنا بالکل قابلِ قبول ہے۔بالی وڈ اداکار عامر خان کو بھی اس تاثر پر تشویش ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’ایسی فلمیں ہیں جو بعض چیزوں کو فیشن ایبل یا اچھی چیز بنا کر پیش کرتی ہیں۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے جو ہماری سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔‘بالی وڈ میں ہر ایک یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر انہیں معذرت کرنی چاہیے جیسا کہ شارہ رخ خان۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ بھارتی سینیما خواتین کو نیچا دکھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’جو اداکارائیں ایسے آئٹم نمبر کرتی ہیں انہیں اس طرح کے گانوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔‘حقوقِ نسواں کی کارکنوں کا کہنا ہے کہ فلموں میں دکھائے جانے والے کرداروں کا حقیقی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ تاہم شاہ رخ خان کا کہنا ہے کہ ان میں کوئی تعلق نہیں ہے: ’اس کا مطلب ہے کہ فلموں میں تشدد کے نتیجے میں تشدد سڑکوں پر آ جاتا ہے، مگر میں نے فلموں کی کامیڈی کو سڑکوں پر آتے نہیں دیکھا۔‘ہدایت کارہ میرا نائر کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے گانوں پر مجھے اعتراض ہے، میں نہیں سمجھتی کہ اس کے نتیجے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی باعزت رشتہ سامنے آتا ہے۔‘اس کے ساتھ ہی یہ تصور بھی عام ہے کہ بالی وڈ نے ٹی وی کے ساتھ مل کر لوگوں میں مادہ پرستی کو فروغ دیا ہے اور خواتین کی آزادی نے مردوں کو مشتعل کیا ہے جس کے نتیجے میں جنسی تشدد کے واقعات زیادہ سامنے آتے ہیں۔میرا نائر کا کہنا ہے کہ ’جب ایک نوجوان مرد کسی عورت کو فلم دیکھنے کے بعد بس میں جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں غصہ دکھائی دیتا ہے، یہ وہ حسد اور غصہ ہے کہ یہ عورت یہاں کیسے پہنچ گئی جبکہ میں نہیں پہنچ پایا۔‘یاد رکھیں کہ آج کل ہندوستانپر اتنی توجہ ہے، مگر یہ اب بھی ریپ کے ریکارڈ کیسوں کے معاملے میں امریکہ سے بہت پیچھے ہے، اور ہالی وڈ میں بھی خواتین کی نمائش ہوتی ہے، یہ الگ بات کہ ان فلموں میں بالی وڈ کے مقابلے میں خواتین کا کردار حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔جہاں بالی وڈ ستاروں کا خیال ہے کہ جنسی جرائم میں فلمی صنعت کا ایک حد تک کردار ہے مگر اس کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے عوامل کارفرما ہیں۔عامر خان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس مکمل قانون نہیں ہے۔ اگر آپ ریپ کو ہندوستان میں جرم کی حیثیت سے دیکھیں تو بہت سے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہماری فلمی صنعت کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم فلموں میں خواتین کو کیسے پیش کرتے ہیں، تو یقیناً اس بارے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قانون اور امنِ عامہ کے نظام نے ہمیں ناکام کیا ہے۔‘