ہرمعاشرے کی طرح فلسطین میں بھی ننھے منھے بچے اپنے گھروں میں اپنے آبائو اجداد کے پاس بیٹھتے اور ان سےکہانیاں سنتے ہیں۔ بزرگ فلسطینی اپنی نئی نسل کو کیا بتاتے ہیں یہ کوئی انوکھا سوال نہیں۔
بزرگ فلسطینی اپنے پوتوں اور نواسے نواسیوں کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فلسطین میں غاصب صہیونی ریاست کیسے قائم کی گئی۔ ان کی املاک اور زمینیں کیسے ہتھیائی گئیں اور یہ کہ اب فلسطین کی نئی نسل کو اپنے چھینے گئے وطن اور اراضی کو کیسے حاصل کرنا ہے؟
مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں ایک کیمپ میں رہنے والی فلسطینی خاتون سمیحہ ابو زر جو اقارب میں ام ایمن ابو وردہ کے نام سے جانی جاتی ہیں اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو جمع کرتی اور انہیں اپنے آبائی شہر یافا سے بے دخلی کی کہانی سناتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 1948ء میں 8 سال کی عمر کی تھیں جب صہیونیوںنے انہیں ان کے آبائی شہر یافا سے نکال دیا تھا۔
“لمہ العیلۃ” داستان
ام ایمن مشرقی نابلس کے علاقے بلاطہ میں پناہ گزین ہیں۔ وہ اپنی تیسری نسل کو اپنی کہانی “لمہ العیلہ” کے مواقع پر کہانیاں سناتی ہیں۔ عرب دنیا میں یہ داستان گوئی کا ایک موقع ہوتا ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ اپنی نئی نسل اور بچوں کو سبق آموز واقعات او کہانیاں سناتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “لمہ العیلہ” بچوں کو کہانی سنانی اور گذرے واقعات اور مظالم کے بارے میں بتانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کو بتاتی ہیں کہ ہمارا گھر یافا میں دریائے العوجا کے علاقے المویلح میں تھا۔ یہ علاقہ سنگترے کے پھلوں سے بھرپور، پانی کے چشموں اور سبزیوں کے باغات کا شہر کہلاتا ہے مگر برسوں سے ہم نے اسے دیکھا تک نہیں کیونکہ ہمیں صہیونی ریاست نے اپنے علاقے، زمین اور گھر بار سے محروم کر دیا۔
ام ایمن کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک سرسبزو شاداب علاقے میں بسنے پر فخر تھا کیونکہ ہم ایک ایسے علاقے میں تھے جس میں سبزیاں اور پھل بازار سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ علاقہ زرعت، مویشی پالنے اور دیگر مقامی پیشوں کی وجہ سے مشہور تھا۔
ام ایمن کی نواسی سمیحہ عاھد کا کہنا ہے کہ میری عمر سات سال ہے اور میں اسکول میں بچوں کو بتاتی ہوں کہ ہمارا خاندانی تعلق یافا کے المویلح قصبے سے ہے۔ میں ایک پناہ گزین ہوں اور ہم اس وقت بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں رہتے ہیں۔
نسل در نسل سلسلہ
بلاطہ پناہ گزین کیمپ کے وسط میں شاہراہ السوق پر اکثر ایک 84 سالہ ابو ابراہیم کو دیکھا جاتا ہے۔ ان کے پاس بچوں کا جھرمٹ رہتا ہے۔ ان کی اپنی آل اولاد کے ساتھ ساتھ دیگر اہل محلہ کے بچے بھی ابو ابراہیم کے پاس آتے ہیں۔ ابو ابراہیم بتاتے ہیں کہ ہم دریائے الھوجا کے کنارے آباد تھے۔ وہاں سے ہمیں نکالا گیا مگر ہم واپسی کی امید آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم واپس نہ ہوئے تو ہماری نسلیں ضرور اپنے آبائی وطن میں جائیں گی۔ یہ ہمارا نئی نسل کے لیے پیغام ہے۔ ہم یہ پیغام نسل در نسل دیتے رہیں گے۔
ابو ابراہیم کے پوتے محمد اور جوری جب بھی گھر لوٹتے ہیں تو اپنے دادا کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ انہیں بیتے دنوں کی داستان سناتے ہیں۔کہانی سناتے ہوئے ابو ابراہیم نے کہا کہ جب ہمیں آبائی شہر سے نکالا گیا تو اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ اس کے بعد ہماری یہ داستان شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ ہمارے اقارب اس وقت جگہ جگہ منتشر ہیں۔ کوئی اردن چلا گیا۔ کسی کو لبنان یا شام میں پناہ دی گئی اور کوئی فلسطین کے اندر ہی در بہ در ہے۔
ابراہیم کے بڑے بیٹے راید مرشود نے بتایا کہ ہم بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ یہ سمجھاتے ہیں کہ ہمارے آبائو اجداد کہاں سے آئےاور ہمیں اپنی سلب شدہ زمین کیسے حاصل کرنی ہے۔
یافا کے نواحی علاقے سلمہ کے معمر امین منصور کا کہنا ہے کہ ہم ایک بار اردن میں ہوائی جہازسے اپنا آبائی علاقہ دیکھا تو بہت دیکھ پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں پرہمارےآبائو اجداد کی قبریں ہیں مگر ہمیں وہاںجانے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین