جرمنی میں جنگی جرائم کا سامنا کرنے والی ایک جرمن خاتون پر الزام ہے کہ اس نے ایک پانچ سال کی بچی کو سخت گرمی میں پیاس سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
27 سالہ جرمن خاتون شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی رکن تھیں اور ان کی شناخت جینفر ڈبلیو کی نام کی گئی ہے، سنہ 2015 میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے میں جانے والے عراقی شہر موصل میں ان کا شوہر ایک بچی کو ’غلام‘ کے طور پر خرید کر گھر لایا تھا۔
استغاثہ کے مطابق جب بچی بیمار ہوئی تو جینفر ڈبلیو کے شوہر نے بچی کو گھر کے باہر زنجیروں سے باندھ دیا تھا۔
جینفر ڈبلیو کو قتل اور ہتھیار رکھنے کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔
میونخ کی دہشت گردی کی عدالت میں اگر وہ مجرم ثابت ہوگئیں تو انھیں زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
پانچ سالہ بچی ایک جنگی قیدیوں کے گروہ کا حصہ تھی جب جینفر ڈبلیو اور ان کے شوہر نے انھیں خریدا تھا۔
جرمن ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس بچی کا تعلق عراق کی اقلیتی یزیدی برادری سے ہوسکتا ہے، جن کی ایک بڑی تعداد کو دولت اسلامیہ نے سنہ 2014 کے بعد شمالی عراق میں اغوا کرکے غلام بنایا تھا۔
استغاثہ کے بیان کے مطابق ’جب بچی بیمار ہوئی اور اس نے بستر گیلا کر دیا، تو ملزمہ کے شوہر نے اسے سزا کے طور پر گھر کے باہر زنجیروں میں جکڑ دیا، اور بچی کو سخت گرمی میں پیاس سے مرنے دیا۔‘
’ملزمہ نے اپنے شوہر کو ایسا کرنے دیا اور بچی کو بچانے کے لیے کچھ نہ کیا۔‘
جینفر ڈبلیو پر عائد کیے جانے والے الزامات کے مطابق انھوں نے سنہ 2014 میں عراق کا سفر کیا تھا، جہاں وہ دولت اسلامیہ نے خود ساختہ اخلاقی پولیس کا حصہ بن گئی تھیں۔
استغاثہ کے مطابق ان کا کام موصل اور دولت اسلامیہ کے زیرقبضہ ایک اور شہر فلوجہ میں گشت کرنا تھا، وہ ایک کلاشنکوف، ایک پستول اور دھماکہ خیز جیکٹ سے مسلح ہوتی تھیں۔
بیان کے مطابق ان کا کام اس بات کو یقینی بنایا ہوتا تھا کہ خواتین کا ’برتاؤ اور لباس اس دہشت گرد تنظیم کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔‘
جینفر ڈبلیو کو بچی کی ہلاکت کے کئی ماہ بعد ترکی کی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ انقرہ میں قائم جرمن سفارتخانے اپنے شناختی کاغذات کی تجدید کے لیے گئی تھیں۔
انھیں جرمنی کے حوالے کر دیا تھا جہاں ابتدائی طور پر ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر انھیں گھر جانے دیا گیا تھا۔
جرمن پولیس نے انھیں جون میں دوبارہ گرفتار کیا جب انھوں نے شام جانے کی کوشش کی اور اس وقت سے وہ حراست میں ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال موصل کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروایا گیا تھا جہاں وہ تین سال تک قابض رہے تھے جبکہ عراق اور شام کے بیشتر علاقوں سے دولت اسلامیہ کا صفایا ہوچکا ہے۔