بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے تشدد اور خوف و ہراس کی فضا میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کرلی جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے دھاندلی زدہ اور مضحکہ خیز قرار دیا۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن ہلال الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ کی 300 میں سے 288 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے حصے میں محض 6 نشستیں ہی آسکیں۔
فرانسیسی خبررساں ’اے ایف پی‘ کے مطابق انتخابات میں کامیابی کے بعد حسینہ واجد ریکارڈ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوچکی ہیں تاہم اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث حزبِ اختلاف نے نتائج تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا۔
خیال رہے کہ 71 سالہ حسینہ واجد کو گزشتہ ایک دہائی سے جاری اقتدار میں بنگلہ دیش کو معاشی طور پر مضبوط بنانے اور ہمسایہ ملک میانمار میں نسل پرستانہ کریک ڈاؤن کے بعدہجرت کرکے آنے والے روہنگیا کو پناہ دینے کے لیے کافی سراہا جاتا ہے۔
دوسری جانب ناقدین ان پر آمریت اور اپوزیشن کے خلاف سنگین کارروائیاں کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں خاص کر ان کی مخالف اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کے خلاف جو بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا بھگت رہی ہیں۔
دھاندلی کی بازگشت
انتخابات میں دھاندلی کے حوالےسے اپوزیشن کے الزامات کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن امریکا اور اقوامِ متحدہ نے بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کے باعث خوف و ہراس کی فضا پھیلی۔
دوسری جانب مرکزی اپوزیشن اتحاد کے 47 امیدواروں نے پولنگ ختم ہونے سے قبل ہی دھاندلی اور ڈرانے دھمکانے کاالزام عائد کر کے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد کی سربراہی میں حکمران جماعت 2009 سے اقتدار میں ہے۔
انتخابات کے دوران خوف کی فضا کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب غیر ملکی خبررساں اداروں نے ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوئے عوام سے گفتگو کی کوشش کی تو حکمراں جماعت کی حمایت کرنے والوں نے بڑھ چڑھ کے جوابات دیے لیکن اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جواب دینے سے گریز کرتے دکھائی دیے۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ سے بھرے ہوئے بیلٹ باکس پہنچائے گئے جب یہی بات برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے نے خود ملاحظہ کی اور اس بارے میں پریزائیڈنگ افسر سے پوچھا تو انہوں نے کسی قسم کے تبصرے سے انکار کردیا۔