پاکستان میں اس وقت شادیوں کا سیزن عروج پر ہے لیکن ملک بھر میں بہت سے ایسے والدین ہوں گے جن کو یہ پریشانی لاحق ہو گی کہ برصغیر میں صدیوں سے چلتی آ رہی جہیز دینے کی روایت میں کمی ہونے کی صورت میں کہیں ان کی بیٹی کا گھر بسنے سے پہلے اجڑ نہ جائے۔
چند روز قبل، 19 دسمبر 2018 کو پاکستان میں خواتین کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی طرف سے فیس بُک اور انسٹاگرام پر ایک تصویر ڈالی گئی۔ تصویر میں مہندی کے ڈیزائن کے اندر لکھا ’جہیز خوری بند کرو‘ کا پیغام بہت واضع تھا۔
جہیز سے شادی
اسی روز انسٹاگرام پر معروف اداکار علی رحمان خان کی شادی کی خبر نے تہلکہ مچا دیا۔ ’پرچی‘ فلم کے اداکار نے اعلان کیا کہ وہ 20 دسمبر کو نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو پر شادی رچائیں گے۔ وعدے کے مطابق علی سج سنور کر شو میں آئے لیکن ڈولی میں دلہن کی جگہ جہیز کا سامان پڑا تھا۔
یہ ’شادی‘ دراصل یو این ویمن پاکستان کی اس مہم کا حصہ تھی جس کا مقصد لڑکے والوں کی طرف سے جہیز لینے کی جاہلانہ رسم کے بارے میں شعور اجاگر کرنا تھا۔
یو این ویمن کی ترجمان انعم عباس بے بی بی سی کو بتایا کہ اس مہم کا اصل مقصد لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا اور جہیز دینے کے عمل کو ایک منفی رجحان کے طور پر دکھانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کے ذریعے وہ مردوں میں یہ تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لڑکی کے خاندان سے مالی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس مہم کو تشکیل دینے والے علی رضا کا کہنا ہے کہ معاشرے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ سسرال سے ایک کپ چائے پینے کو حقیر بات سمجھنے والے مرد جہیز کی صورت میں ’سٹارٹ اپ فنڈز’ لینے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے۔
انسٹاگرام پر علی رحمان خان لکھتے ہیں ’جب رشوت لینے والے کو رشوت خور کہتے ہیں تو جہیز لینے والے کو جہیز خور کیوں نہیں؟ جہیز ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں جڑیں پکڑ چکا ہے اور ہمیں اس بے ضابطگی کو روکنا ہو گا۔‘
ٹی وی اداکارہ ایمن خان نے بھی سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’مرد کی عزت اُس وقت کہاں ہوتی ہے جب وہ اپنی ہونے والی بیوی اور اس کے خاندان سے پیسے اور گھریلو سازوسامان مانگتا ہے؟’