یہ 1967ء کے آخری ایام ہیں اور میلبورن کرکٹ گراؤنڈ (ایم سی جی) کے تاریخی میدان میں میزبان آسٹریلیا کا مقابلہ بھارت سے ہے۔ بھارت کی 5 وکٹیں صرف 25 رنز پر گرچکی ہیں اور ایک بلے باز زخمی بھی ہوچکا ہے۔
اس صورتحال میں میدان میں آتے ہیں کپتان منصور علی خان پٹودی، جو خود بھی ران کے پٹھے میں تکلیف سے دوچار ہیں۔ پھر انہوں نے 228 منٹ تک آسٹریلیا کی طوفانی باؤلنگ کا سامنا کیا، ’ایک ٹانگ اور ایک آنکھ‘ سے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ منصور علی خان کی ایک آنکھ پتھر کی تھی کیونکہ نوجوانی میں ایک حادثے میں ان کی دائیں آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ لیکن یہ یادگار اننگز بھی بھارت کو میچ میں اننگز کی بھاری شکست سے نہ بچا سکی، میچ تو ایک طرف بھارت کو دورے میں چاروں ٹیسٹ میچز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
آج نصف صدی بعد بھارت نے بالآخر آسٹریلیا کو اسی کی سرزمین پر شکست دے دی ہے اور وہ خواب پورا ہوا جو منصور علی خان سمیت کئی کپتانوں نے دیکھا تھا اور اس کی تعبیر کا انتظار کرتے کرتے گزر گئے۔ آج نواب پٹودی زندہ ہوتے تو بلاشبہ یہ ان کی زندگی کا ایک یادگار دن ہوتا۔
آسٹریلیا میں بھارت کی جیت کتنی بڑی ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایشیا کی کوئی ٹیم کبھی بھی آسٹریلیا کو اس کے ملک میں شکست نہیں دے سکی یعنی ‘پڑوسی’ نے واقعی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
کچھ ’دل جلے‘ تو بھارت کی اس کامیابی کو اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی عدم موجودگی کا منطقی نتیجہ کہہ رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ بہت بڑا کارنامہ ہے، اتنا بڑا کہ روی شاستری کا یہ دعویٰ بھی مضحکہ خیز نہیں لگ رہا کہ ’یہ 1983ء کے ورلڈ کپ سے بھی بڑی کامیابی ہے۔‘
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان جنوبی افریقہ کے ہاتھوں بُری طرح پٹ رہا ہے، سوال اٹھتا ہے کہ آخر بھارت کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی تھی جس کی بدولت اسے یہ عظیم کامیابی ملی؟
فی زمانہ ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی کے لیے جن عناصر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بھارت کے پاس بدرجہ اُتم موجود ہیں۔
ایک بہترین بیٹنگ لائن اپ کہ جس میں نوجوان بھی اپنا حصہ خوب ڈال رہے ہیں۔
باؤلرز کا عمدہ ملاپ کہ کارکردگی میں فاسٹ اور اسپن باؤلرز برابر کے حصہ دار ہیں۔
مستعد فیلڈنگ اور
سب سے بڑھ کر عملی طور پرخود کچھ کر دِکھانے والا کپتان۔
چند سال پہلے جب پاکستانی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں راج کررہی تھی تو پاکستان کی جیت کا نسخہ بھی کچھ یہی تھا۔
لیکن یہ 4 عناصر تو کرکٹ کی بنیاد ہیں، ہیں نا؟ پھر کون سی چیز مختلف ہے؟ دراصل ٹیسٹ کرکٹ میں حریف کی 20 وکٹیں لینا بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ فارمولہ 10 سال پہلے تو چلتا تھا مگر اب اتنا کارگر نہیں۔ یہ مختصر کرکٹ کا زمانہ ہے۔ کرکٹ ون ڈے سے ٹی ٹوئنٹی میں تبدیل ہوئی اور اب 15 اور 10 اوورز کے میچز کی صدائیں سننے میں آ رہی ہیں۔ ایسے دور میں کھلاڑیوں میں فطری طور پر وہ ٹھہراؤ نظر نہیں آتا جو پہلے کبھی ہوتا تھا۔
وہ زمانے لد گئے کہ جب ٹیمیں 2، ڈھائی دن بیٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ اب ایسی میچ بچاؤ اننگز شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آج جیت کا فارمولہ بالکل مختلف ہے، وہ ہے اپنی بیٹنگ کی طاقت سے حریف کو دباؤ میں لانا اور پھر باؤلنگ کے ذریعے اس پر حاوی ہوجانا، لیکن بنیاد ہے بیٹنگ۔ اگر بیٹنگ میں دم نہیں تو چاہے باؤلرز بارہا مواقع پیدا کریں لیکن پاکستان کی طرح کامیابی ہاتھوں سے نکلتی ہی رہے گی۔
پاکستان اور بھارت کے حالیہ نتائج یہی ثابت کر رہے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں جس کی بیٹنگ بہتر ہوگی۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن ہر دوسری اننگز میں دھوکا دے جاتی ہے لیکن بھارت کی نہیں۔
آسٹریلیا کے دورے پر بھارت کو مچل اسٹارک، جوش ہیزل وڈ، پیٹ کمنز اور نیتھن لیون پر مشتمل آسٹریلیا کے بھرپور باؤلنگ اٹیک کا سامنا تھا۔ لیکن ان کے سامنے گھبرانے کے بجائے بھارتی بلے بازوں نے 5 سنچریاں بنائیں جن میں سے 3 تو چیتشور پجارا کی تھیں۔ پرتھ میں واحد شکست کے سوا بھارت کی بیٹنگ لائن پوری سیریز میں چھائی رہی اور جہاں کمی بیشی ہوئی، باؤلنگ نے کسر پوری کردی۔
آخری ٹیسٹ میں پجارا کی 193 اور رشبھ پنت کی ناٹ آؤٹ 159 رنز کی اننگز دیکھنے کے لائق تھیں۔ بھارتی باؤلرز نے اپنے بلے بازوں کا بھرپور ساتھ دیا اور آسٹریلیا کے کسی ایک بیٹسمین کو سنچری تو ایک طرف 100 رنز کی پارٹنرشپ تک نہ بنانے دی۔ یہ آسٹریلیا کی پوری ٹیسٹ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ 4 یا اس سے زیادہ ٹیسٹ میچز کی سیریز میں کوئی ایک آسٹریلوی بلے باز بھی سنچری نہ بنا پایا ہو اور یہی تھی آسٹریلیا کی شکست کی بنیاد یعنی بیٹنگ نہیں چلی۔
بھارت کی نمبر ایک رینکنگ اب اور مضبوط ہوگئی ہے اور کوئی اس کا مقابل دکھائی نہیں دیتا۔ ماضی کی عظیم طاقت آسٹریلیا درجہ بندی میں 5ویں نمبر پر ہے، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں فی الحال اتنا دم خم نہیں کہ وہ بھارت کی بالادستی کو چیلنج کرسکیں۔ لیکن کیا جنوبی افریقہ ایسا کرسکتا ہے؟ گزشتہ 20 سال میں 3 بار آسٹریلیا کو اس کے ملک میں ہرانے والی ٹیم جنوبی افریقہ سے ہی کچھ امیدیں ہیں۔