سمپت کے لیے مریخ مشن پر کام کرنے کا موقع، خواب پورا ہونے کے مترادف تھا. مينال سمپت دو سال تک بھارت کے ’مریخ کے مشن‘ میں سسٹم انجینیئر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ملک کے اس اہم ترین خلائی مشن پر جانے کی تیاری کے لیے وہ گذشتہ دو سال تک بغیر کھڑکی کےایک کمرے میں 18 گھنٹے تک روزانہ کام کرتی رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ایک زبردست ٹیم تھی اور ہمارے درمیان ڈیڈ لائن تک کام ختم کرنے کا سمجھوتہ ہوا تھا۔ مشن کے لانچ کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی اور ہم اسے پورا کرنا چاہتے تھے۔‘
وہ دن آخر کار آ ہی گیا جب بھارت کے مشرقی ساحل پر ساتش دھن سپیس سینٹر سے 9:08 جی ایم ٹی پر مارس آربیٹر مشن خلا کی طرف روانہ ہوا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب بھارت بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا جو اس قسم کے خلائی مشن لانچ کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے صرف سابق سوویت یونین، روس، امریکہ، برطانیہ، یورپ، جاپان اور چین ایسے مشن شروع بھیج چکے تھے۔ ابھی تک لانچ کیے گئے 40 میں سے تقربیاً آدھے سے تھوڑے ہی کامیاب رہے ہیں۔
اگر بھارت کا مارس آربیٹر مشن سرخ سیارے تک پہنچ جاتا ہے تو یہ خلائی مشنز میں کامبابی حاصل کرنے والے ان مختصر ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جنھوں نے کامیابی کے ساتھ اپنے خلائی مشن کو مکمل کیا۔ ابھی تک اس حد تک کی کامیابی صرف یورپ، روس، اور امریکہ کو ملی ہے۔
سمپت کے لیے مریخ مشن پر کام کرنے کا موقع، خواب پورا ہونے کے مترادف تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں پرائمری سکول میں تھی جب میں نے ٹی وی پر خلائی مشن کو لانچ ہوتے براہ راست دیکھا۔ مجھے اس وقت لگا کہ اگر میں وہاں پر کام کروں تو کتنا اچھا ہوگا اور اب میں یہاں پر ہوں۔‘
سمپت ان 500 سائنسدانوں میں سے ہیں جنھوں اس پراجیکٹ میں شامل ہیں جس کا اعلان وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے تقریباً 15 مہینے پہلے کیا تھا۔
سمپت ان 500 سائنسدانوں میں سے ہیں جنھوں نے اس پراجیکٹ پر کام کیا ہے
سمپت اور ان کی ٹیم نے اہم تجربات کرنے کے لیے خلائی جہاز کے لیے تین آلات تیار کیے تھے۔
ان کا کہنا ہے ’لانچ سے پہلے دو سال کے دوران میں نے سنیچر اور چھٹیوں کو خیر باد کہہ دیا۔ ہم بعض اوقات 18، 18 گھنٹے تک کام کرتے تھے۔‘
سمپت بھارت کے خلائی مشن پر کام کرنے والی چند خواتین میں سے ایک ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود انھیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔
’میں ایک ایسے ادارے میں کام کر رہی ہوں جہاں میں بعض اوقات یہ بھول جاتی ہوں کہ میں ایک عورت ہوں۔‘
انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم صاف ستھرے ماحول میں سوٹ پہن کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ کون مرد ہے اور کون عورت۔‘
لیکن ادارے میں ہر دس میں سے ایک خاتون اہلکار ہیں جسے وہ تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ ’میں چاہتی ہوں کہ خواتین یہ سوچیں کہ وہ یہ کام کر سکتی ہیں۔‘
خاندان سے دور
سمپت کی زندگی میں ایک مشکل وقت وہ ہوگا جب ستمبر میں خلائی جہاز مریخ پہنچ جائے گا اور مشن کو مکمل کرنے کے لیے پورا نظام حرکت میں آجائے گا۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ا نھیں اپنے خاندان سے دور رہنا پڑے گا۔
’میں پرائمری سکول میں تھی جب میں نے ٹی وی پر خلائی مشن کو لانچ ہوتے براہ راست دیکھا۔مجھے اس وقت لگا کہ اگر میں وہاں پر کام کروں تو کتنا اچھا ہوگا اور اب میں یہاں پر ہوں‘
وہ کہتی ہیں ’اس نوکری کے لیے مجھے جو دینا پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ جب میرا بیٹا بیمار ہو اور اسے میری ضرورت ہو اور میں بنگلور میں کسی سسٹم کو ٹھیک کرنے میں مصروف ہوں۔‘
تاہم سمپت اس بات پر مصر ہے کہ ان کے ساتھ برا نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ آپ پر ہے کہ آپ زندگی کیسے گزارنا چاہتے ہیں۔’آپ نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں خواب دیکھنے ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار آپ پر ہے۔ صرف آپ ہی اپنی زندگی بنا سکتے ہیں۔‘
ان کا روایتی بھارتی خاندان ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انھیں بیرونِ ملک زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مینال سمپت کہتی ہیں کہ ’میں سپیس سینٹر کی پہلی خاتون ڈائریکٹر بننا چاہتی ہوں‘ اور وہ خلا میں خود جانا پسند کرتی ہیں مگر شاید وہ یہ کام آئندہ کی نسل کے لیے چھوڑ دیں۔
’میں اپنے بیٹے سے کہتی ہوں کہ وہ خلا میں سیاحت کے لیے رقم جمع کرتا رہے۔‘
بھارت میں جتنے لوگ غربت میں رہتے ہیں وہاں کیا ایسے مشن پر سات کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالر کی رقم خرچ کرنا ٹھیک ہے؟ سمپت کہتی ہیں کہ یہ صحیح ہے کیونکہ خلا کی دریافت ہر بھارتی شہری کو جذبے اور لگن کا پیغام دیتا ہے۔
’اس سے کسی غریب کا پیٹ تو نہیں بھر جائے گا لیکن وہ غریب بندہ یہ سوچ سکتا ہے کہ دیکھو ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ اس سے آپ کی سوچ وسیع ہو جائے گی۔‘
انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بھارتی مریخ مشن پر ہالی وڈ کے اوسط درجے کی فلم کی پرڈکشن سے کم خرچہ آ رہا ہے۔