ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے ہندوستان میں کچھ دنوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ سنہ 1984 میں دو دن کے اندر تقریـباً چار ہزار سکھوں کے قتلِ عام کے لیے راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہیے یا نہیں۔
یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران راہل گاندھی سے دہلی کے قتلِ عام کے بارے میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی ذمے داروں کے بارے میں پو چھا گیا۔ راہل گاندھی نے جواب دیا کہ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔
اس سے پہلے گجرات کے وزیرِاعلیٰ نریندرمودی سے ان کے مخالفین یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ گجرات کے سنہ 2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے مسلمانوں سے معافی مانگیں۔
بھارت میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
ہزاروں انسانوں کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کے ساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔
گجرات کے فسادات بھارت کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویژن کے توسط سے پہلی بار براہِ راست دیکھیں۔
فسادیوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی
بھارت میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نہ اہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جا تی۔
سنہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پمیانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
گجرات میں بھی یہی صورت حال تھی۔ متاثرین نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹس درج کرائیں لیکن پولیس نے اس طرح ان معاملوں کی تفتیش کی کہ ایک کے بعد ایک سارے کیس ڈھے گئے۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے اس کے مقررہ افسروں نے دوبارہ جانچ کی اور مقدمات میں اب تک سینکڑوں قصورواروں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ ان میں مودی کی ایک خاتون وزیر بھی شامل ہیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد سنہ 1992 -93 میں ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔
سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔
سیکیولرلالو یادو سنہ 1989 کے بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انھوں نے 15 برس کے اپنے دورِ اقتدار میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا۔ نتیش کی حکومت بننے کے بعد مقدمہ چلا اور کئی افراد کو عمر قید کی سزا ہوئی اور متاثرین کو معاوضہ ملا۔
سنہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات
سنہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پمیانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
ملائم سنگھ یادو نے میرٹھ کے مالیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے تقرییاً 50 مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے کئی کو ترقی بھی دی ۔ ملائم کی حکومت قصور وار اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے یہ مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا ہے۔
گجرات کے سنہ 1984 کے فسادات کے لیے معافی مانگنے کی سیاست کے درمیان کو ئی یہ نہیں مطالبہ کر رہا ہے کہ مظفر نگر کے فسادات کے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انھیں سخت ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ یہ نہ کسی کا ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہے۔
اس کی جگہ سیاسی جماعتیں عوامی تقریبات میں اپنے ان رہنماؤں کی عزت افزائی کر رہی ہیں جن پر فسادات برپا کرنے کا الزام ہے ۔ دو چار دن کی حراست کے بعد سبھی آزاد ہیں۔
حکمران کانگریس نے دس برس قبل اپنے انتخابی منشور میں مذہبی فسادات پر قابو پانے اور متاثرین کی موثر مدد کے لیے ایک قانون بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
10 برس کے بعد جب حکومت ختم ہونے کے قریب ہے اور پارلیمان کا اجلاس ختم ہونے کو ہے تو کانگریس نے پچھلے دنوں ایک بل پیش کیا۔ بل میں بہت ساری خامیاں تھیں جو بحث کے بعد آسانی سے دور کی جا سکتی تھیں لیکن سبھی جماعتوں نےکوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے مسترد کر دیا۔
مذہبی فسادات بھارت کی رنگ برنگی جمہوریت کا بد ترین کلنک ہیں۔ پچھلے 30 برس سے ہزاروں قاتل سیاسی پشت پناہی، تحفظ اور قانون سے ماورا ملک کے مختلف علاقوں میں بے خوف خطر سرگرم ہیں اور انھیں پھر کسی مظفرنگر کی تلاش ہے۔