امریکا اور دیگر جنوبی امریکی ریاستوں نے وینیزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کی صدارت کو تسلیم کرلیا جبکہ اقوام متحدہ نے ’تباہی‘ سے بچنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق خطے کی دیگر ریاستوں جن میں برازیل، کولمبیا، چلی، پیرو اور ارجنٹینا شامل ہیں نے گوائیڈو کی خود ساختہ صدر بننے کے دعوے کی حمایت کی جو انہوں نے وینیزویلا کے دارالحکومت کاراکس میں ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔
یورپی یونین نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے شفاف انتخابات کرانے پر زور دیا ہے جبکہ روس نے مغربی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وینیزویلا کے موجودہ صدر نکولس مادورو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ وینیزویلا میں حکومت کے خلاف مظاہرے کافی عرصے سے جاری تھے تاہم یہ گزشتہ روز شدت اختیار کرگئے جہاں 7 مظاہرین سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئے۔
جوان گوئیدو نے کاراکس میں ہزاروں افراد کے سامنے خود کو صدر بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ہی واحد راستہ ہے مادورو کی ’آمریت‘ کے خاتمے کا جس کی وجہ سے ملک میں غربت میں اضافہ اور غذا کا بحران بھی آیا۔
انہوں نے پرجوش عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جانتا ہوں اس کے کیا نتائج ہوں گے‘ جس کے بعد وہ فوری طور پر نامعلوم مقام پر چلے گئے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوان گوئیدو کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وینیزویلا کی عوام نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مادورو اور اس کے دور حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور آزادی کا مطالبہ کیا ہے‘۔
دوسری جانب مادورو نے جواب دیتے ہوئے امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور امریکی سفیروں کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
تاہم واشنگٹن کا کہنا تھا وہ ان احکامات کو نظر انداز کریں گے۔
مادورو جنہیں وینیزویلا کی افواج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی حمایت حاصل ہے نے اپنے حامیوں سے مدد طلب کرتے ہوئے امریکا کی خانہ جنگی کے دوران مداخلت یاد دلائی۔
صدارتی محل آنے والے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکیوں کا اعتبار نہیں کرو، وہ دوست نہیں اور نہ ہی سچے ہیں، وہ صرف مفاد پرست ہیں اور وینیزویلا کے تیل، گیس اور سونے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘۔