کسی بھی کمپنی کا لوگو کمپنی کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا اس کی تخلیق میں کافی تحقیق اور پیسہ لگتا ہے۔
اس سب کے باوجود کئی دفعہ یہ نئے اور خوبصورت ڈیزائن غیر متوقع تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مشہور برانڈ نائیکی کی نئی پیشکش کے ساتھ ہوا۔
کھیلوں کا سامان بنانے والی اس کمپنی کے خلاف کچھ مسلمان احتجاج کر رہے ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ نائیکی کے نئے جوتوں (ایئر میکس 270) پر بنائے گئے ڈیزائین عربی کے لفظ ’اللہ‘ سے مشابہت رکھتا ہے۔
انٹرنیٹ پر اس بارے میں ایک آن لائن پٹیشن جو دو ہفتے قبل شروع کی گئی پر اب تک 17000 دستخط ہو چکے ہیں۔ اس پٹیشن میں کمپنی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہ جوتے دنیا بھر میں واقع اپنے سٹورز سے واپس منگوا لے۔
نائیکی نے اس بارے میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ لوگو ایئر میکس کے ٹریڈ مارک کی سٹائل میں نمائندگی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کوئی معنی یا نمائندگی غیر ارادی ہے۔ نائیکی تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے اور ہم اس نوعیت کے تحفظات کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔‘
کاروبار سے منسلک تجربہ کار برانڈ ڈیزائنرز یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایک بار جب آپ کی ’پراڈکٹ‘ مارکیٹ میں چلی جائے تو اس کی ترجمانی آپ کی سوچ سے کہیں بڑھ کر کی جا سکتی ہے۔
لندن اولمپکس کے لوگو میں گڑبڑ
2012 کے لندن اولمپکس کے منتخب کردہ لوگو کو برانڈنگ کے غلط ہو جانے کی ایک اہم مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس لوگو کو لندن میں اولمپکس کی واپسی کی خوشی منانے کے لیے بنایا گیا تھا جہاں 1908 اور 1948 میں اولپکس کا انعقاد ہو چکا تھا۔
2007 میں دنیا کے سامنے پیش کیے جانے کے بعد اس لوگو کو اس کے کچھ زیادہ ہی ہٹ کر ڈیزائن، بہت ہی مختلف قسم کے فونٹ اور غیر معمولی گلابی رنگ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کچھ لوگوں کو اس پر ہنسی آئی ان کا خیال تھا کہ اس کی عکاسی فحش ہے۔
ایران کی اولمپک انتظامیہ نے اس لوگو میں ’ 2012‘ کے ہجوں کو لفظ صیہون مراد لیا۔
لیکن سب سے زیادہ شور شرابا تک ہوا جب برطانوی میڈیا نے یہ خبر دی کہ اس لوگو کو پر چھ لاکھ ڈالر خرچہ آیا جسے وُولف اولنز نے ڈیزائن کیا تھا۔
لیکن عالمی اولمپک کمیٹی کے مطابق، 2012 کی اولمپکس کے موقع پر بنائی گئی مصنوعات نے 12 کروڑ ڈالر کمائے باوجود اس کے کہ ان سب پر یہی متنازع لوگو لگا ہوا تھا۔ یہ اولمپک کی تاریخ میں دوسری بڑی کمائی تھی۔
صابن پر بنے شیطانی لچھے
1980 کی دہائی میں مشہور امریکہ صابن، شیمپو اور حفظانِ صحت کی مصنوعات بنانے والی کمپنی ’پراکٹر اینڈ گیمبل‘ پر شیطان پرستی کا الزام لگا تھا۔
اس وقت کمپنی پرانا لوگو جو 1851 میں بنا تھا استعمال کر رہی تھی جس میں ایک بوڑھا باریش شخص اور 13 ستارے تھے۔
100 سال بعد کمپنی ان افواہوں کو نشانہ بنی جن میں کہا گیا کہ اس لوگ کا اشارہ شیطان کی جانب ہے اور کمپنی خفیہ طور پر شیطان پرستوں کے فرقوں کو عطیات دیتی ہے۔
یہ سب صرف اس لیے ہوا کہ چند لوگ جن کی کچھ عجیب خیالات تھے نے اس کی ترجمانی یوں کی کہ بوڑھے شخص کی داڑھی اور بال سینگوں والے شیطان کی ترجمانی کرتے ہیں اور مبینہ طور پر ستاروں کا ایک خفیہ مجموعہ ’666‘ بنتا ہے جسے روایتی طور پر شیطان سے جوڑا جاتا ہے۔
کمپنی نے 1991 میں اپنا لوگو تبدیل کر دیا لیکن مزا تب آیا جب انھوں نے اپنی مخالف کمپنی کے خلاف ایک کروڑ نو لاکھ ڈالر کا مقدمہ بلآخر 2007 میں جیت لیا۔ جب یہ پتا چلا کہ کمپنی ’ایم وے‘ کا ان افواہوں کے پھیلائے جانے کے پیچھے ہاتھ تھا۔
لوگو جو فلش کی نظر ہو گیا
2012 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے اپنے ادارے کے تشخص کی تجدید کی کوشش کی مگر یہ سب گٹر کی نذر ہو گیا۔
ایک نیا ٹریڈمارک ڈیزائن بنایا گیا تھا جس کا مقصد اس معتبر یونیورسٹی کے لیٹر ہیڈ اور ڈپلومے کو ایک جدید رُخ دینا تھا۔
لیکن طالب علموں کو اس لوگو کی ٹوائلٹ کے فلش کے بھنور سے مشابہت تلاش کرنے میں زرا دیر نہیں لگی جنھوں نے اسے ’ٹوائلٹ باؤل‘ کا نام دیا۔ جس کا امریکہ بھر میں مذاق اڑایا گیا تھا۔
یہ حیرت انگیز بات نہیں تھی کہ لوگو کو فوراً رد کر دیا گیا تھا۔
اولمپک میں ’سرقہ‘
اب باری ہے اولمپک سے ہی جڑی ایک حالیہ مثال کی۔
ستمبر 2015 میں ٹوکیو میں منعقد ہونے والی 2020 کے کھیلوں کی انتظامی کمیٹی نے اپنا لوگو رد کر دیا جب اس پر ’پلیجریزم‘ یعنی ڈیزائن سرقہ کرنے کا الزام لگا۔
بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ڈیزائنر اولیویے ڈیبی نے اولمپک کی انتظامی کمیٹی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے جاپانی شہری کینجیرو سانو نے ان کا لوگو ’سرقہ‘ کیا ہے جو کہ انھوں نے دو سال قبل بیلجیئم کے ایک تھیٹر کے لیے بنایا تھا۔
کینجیرو اور ٹوکیو 2020 اولمپک کی انتظامیہ نے ان الزامات سے انکار کیا تھا۔
لیکن ایک سال بعد میں اس لوگو کو آساؤ توکولو کے ڈیزائن سے تبدیل کر دیا گیا۔
مالٹے کے جوس کا کھٹا لوگو
2009 میں عالمی شہرت یافتہ جوس برانڈ ٹروپیکانا کو اپنا لوگو تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد کھٹائی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے اپنے جوس کا لوگو بدلنے کا فیصلہ کیا۔
کمپنی نے اپنے روایتی ’سٹرا اور مالٹے‘ والی تصویر کی جگہ جوس سے بھرے گلاس کی تصویر لگا دی۔
کمپنی نے شمالی امریکہ میں اپنی سب سے زیادہ بکنے والی پراڈکٹ کی دوباہ ڈیزائنگ پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔
لیکن جب نئے ڈیزائن کے ساتھ مصنوعات مارکیٹ میں آئی تو صارفین کو بالکل پسند نہیں آیا۔ آمدنی میں دو فیصد کمی نے کمپنی کو اپنا ڈیزائن بدلنے پر مجبور کر دیا۔ اپنے پرانے ڈیزائن کو دوبارہ استعمال میں لانا پڑا۔
ٹروپیکانا کے ایک مینیجر نے یہ تسلیم کیا کہ: ’وہ اپنے صارفین کی اصلی پیکجنگ کے ساتھ جذباتی وابستگی کا درست اندازہ نہیں لگا سکے۔‘