جب کرسٹو کارمن اپنے آپ کو ’احمقانہ‘ غلطی پر کوس رہے تھے، تب اُن کو اندازہ نہیں تھا کہ اِن کو ایک ایسی کاروباری ترکیب سوجھے گی جس کی مالیت اب ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔
ایسٹونیا سے تعلق رکھنے والے کرسٹو کارمن 2008 میں 28 برس کے تھے اور وہ لندن میں ایک مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے جب اِن کو کرسمس پر دس ہزار پونڈ کا بونس ملا تو انھوں نے اس رقم کو برطانیہ میں رکھنے کی بجائے ایسٹونیا میں اپنے بینک اکاونٹ میں رکھنا مناسب سمجھا کیونکہ ایسٹونیا میں سود کی شرح برطانیہ کے مطابق زیادہ ہے۔
کرسٹو کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے برطانوی بینک کو 15£ کی فیس دے کر دس ہزار پاؤنڈ رقم بھجوا دی۔ ایک ہفتے بعد میں نے دیکھا کہ ایسٹونیا کے اکاؤنٹ میں پانچ سو پاؤنڈ کم پہنچے تھے۔
’میں نے کچھ تفتیش کی اور مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت احمقانہ حرکت کی تھی۔‘
’مجھے یہ لگا تھا کہ جو ایکسچینج ریٹ مجھے روئٹرز اور بلومبرگ جیسی نیوز ایجنسیوں پر نظر آ رہا تھا، وہی مجھے میرا برطانیہ کا بینک بھی دے گا۔‘
’اِس کے برعکس بینک نے پانچ فیصد کم ریٹ دیا، یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بینک پیسے کماتے ہیں۔ یہ میری غلطی تھی۔‘
خود سے ناراض کرسٹو نے ایک ایسی ترکیب سوچنا چاہی جس کے تحت وہ بیرونِ ملک سے بینکوں کے بغیر رقوم بھجوا سکیں۔
شروعات میں صرف کرسٹو اور اِن کے دوست ٹاوٹ ہنرکس، جو کہ ٹیلی کام کمپنی سکائپ میں ڈائرکٹر تھے، ایک دوسرے کو پیسے بھجوا رہے تھے۔
یہ ترکیب اِس لیے چلی کیونکہ کرسٹو اکثر پاؤنڈ کی جگہ ایسٹونیا کی کرنسی کرون چاہتے تھے اور ٹواٹ ہنریکس کرون کی جگہ پاؤنڈ۔ دونوں وہ شرح مُبادلہ استعمال کرتے تھے جو کہ اُس دن کے فی اوسط کے مطابق تھا۔
جلد انھوں نے دوستوں کا ایک ایسا نیٹ ورک بنایا جو کہ ایسٹونیا سمیت اور ممالک کے رہائشی بھی تھے اور یہی کام کر رہے تھے۔ کرسٹو اور ٹواٹ ہنریکس کو احساس ہوا کہ وہ اِس سے اپنا کاروبار شروع کر سکتے تھے۔
تو 2011 میں انھوں نے لندن میں ٹرانسفر وائز کا افتتاح کیا، جو کہ ایک ایسی مالی ٹیکنالوجی یا فِنٹیک کی ویب سائٹ ہے جس کے تحت لوگ بیرونِ ملک کسی دوسری کرنسی میں درمیانے ریٹ پر 0.5% کی فیس دے کر پیسے بھجوا سکتے ہیں۔
آج ٹرانسفر وائز ایک عالمی کاروبار ہے جس کے سرمایہ کاروں میں ورجن کے سربراہ رچرڈ برینسن اور پے پیل کے شریک بانی میکس لیوچِن بھی شامل ہیں۔
پہلے سال میں کرسٹو اور ٹواٹ ہنریکس نے اپنی جمع پونجی استعمال کر کے تحمل سے کاروبار بڑھایا۔
پہلے تو گاہک لوگوں کی زبانی آہستہ آہستہ سے آئے، لیکن ایک ٹیکنالوجی ویب سائٹ پر مثبت جائزے کے بعد تعداد ایک دم بڑھ گئی۔
قانونی مسائل سے بچنے کے لیے کرسٹو اور ٹاوٹ نے کاروبار شروع کرنے سے پہلے ہی برطانیہ کے نگران ادارے فائنینشل سروسز اتھارٹی سے اجازت لے لی تھی۔
کرسٹو کہتے ہیں ’انھوں نے پہلی مرتبہ ایسی چیز دیکھی تھی۔ لیکن وہ کم از کم اتنا سمجھ گئے تھے کہ ہم کچھ غلط نہیں کریں گے۔‘
کرسٹو اور ٹواٹ ہنریکس نے 2012 کے شروع میں اپنے لیے سرمایہ کار کی تلاش شروع کر دی تھی اور انھیں اس تلاش میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
کرسٹو کہتے ہیں کہ ‘ہم نے شاید 15 سرمایہ کاروں سے بات کی تھی لیکن ان سب نے ہمیں انکار کر دیا تھا اور یہ کہ اس وقت یورپ میں کوئی ہماری مدد کو تیار نہیں تھا، اس وقت یورپی سرمایہ کار، سرمایہ کاری میں امریکیوں سے بھی زیادہ محتاط تھے۔‘
‘لہذا ہمیں پہلی سرمایہ کاری نیویارک کی ایک چھوٹی مالی مدد فراہم کرنے والی کمپنی آئی اے ونچرز سے ملی۔
اور جیسے ہی ہماری کمپنی ٹرانسفر وائز نے باقاعدہ طور پر ترقی کرنا شروع کی دیگر سرمایہ کاروں نے بھی ہم سے رابطہ کیا۔ اب تک یہ کمپنی کی 305 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری حاصل کر چکی ہے۔
جبکہ اس کمپنی کی ویب سائٹ اور ایپس کو 40 لاکھ سے زائد افراد نے استعمال کیا ہے اور یہ 49 ملک کی کرنسیوں میں 50 ممالک میں میسر ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس سروس کے ذریعے ہر ماہ تین ارب پاؤنڈ منتقل کیے جاتے ہیں۔
ٹرانسفر وائز کے ٹیمپابے، بداپسٹ اور ٹوکیو جیسے دیگر آٹھ شہروں اور ایستونیا کے درالحکومت ٹیلن میں دوسرے بڑے دفتر کے ساتھ اس کی آمدن میں117 ملین پاؤنڈ کا اضافہ ہوا ہے جو کہ مارچ 2018 کی پہلی سہ ماہی میں 75 فیصد تھا۔
اس کا سالانہ منافع 6.2 ملین کی سطح پر برقرار رہا۔ اب اس کمپنی کے 1400 ملازمین ہیں۔ مارچ 2017 سے پہلے کمپنی کو ہمیشہ خسارے کا سامنا رہا کیونکہ اس وقت وہ سرمایہ اس کی توسیع میں خرچ کر رہے تھے۔
فن ٹیک کے مصنف اور تبصرہ کار کرس سکینر کا کہنا ہے ٹرانسفر وائز نے بہت تیزی سے ترقی کی کیونکہ وہ لوگوں کے لیے استعمال میں سستی تھی اور اس کی کوئی پوشیدہ فیس نہیں تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘اس میں کچھ بڑے سرمایہ کار بھی شامل کیے جائیں تو ممکنہ کامیابی آپ کی مٹھی میں ہے۔’
‘میں نے ممکنہ کامیابی کا کہا ہے کیونکہ اس دنیا میں ایک اچھا خیال، اچھی مارکیٹنگ، مناسب سرمایہ کچھ بھی سو فیصد کامیابی کی ضمانت نہیں دیتے۔’
اگرچہ مونزو، سٹارلنگ، ریولٹ اور ان جیسی دیگر برطانوی فن ٹیک کمپنیوں کے ہوتے ہوئے ٹرانسفروائز ان تمام سے نمایاں بن کر سامنے آئی ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کم خرچ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
حالانکہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کرسٹو کا کہنا ہے کہ وہ اور کمپنی کے شریک بانی 37 سالہ ٹواٹ ہنریکس شروع میں سب کام خود کرتے رہے ہیں اور بہت دفعہ ہم دونوں ایک دوسرے کا کام بھی کر لیتے تھے۔
جب کرسٹو کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں تو وہ آرام کرتے ہیں، کائٹ سرفنگ کرتے ہیں اور ہر کرسمس اور نئے سال کی آمد پر موٹر سائیکل پر اپنے بھائی کے ہمراہ افریقہ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا کہ ‘جب ہم نے کاروبار شروع کیا تھا تو بہت سے نامعلوم خدشات تھے۔ کیا دو ایستنوائی باشندوں کی جانب سے بنائی گئی اس ویب سائٹ پر کوئی بھروسہ کرے گا؟ کیا کسی اور کو یہ مسئلہ درپیش ہوگا جس کو ہم حل کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا دنیا بھر لوگوں کو یہی مسئلہ ہے اور کیا وہ ہم ہر بھروسہ کریں گے؟’