تاریخ اسلام کی عظیم المرتبت خواتین میں سے ایک جلیل القدر خاتون حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا ہیں جو ہیشہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں اور بنی امیہ کے حکمرانوں کی مذمت کیا کرتی تھیں آپ ہمیشہ مجالس عزائے حسینی برپا کرتی تھیں تا کہ شہدای کربلا کا مشن و مقصد ہمیشہ زندہ رہے ۔ اہل بیت علیہم السلام سے عشق و محبت رکھنے والی خواتین ان مجلسوں میں شرکت کرتی تھیں اور مظلوم کربلا پر ہونے والے مصائب و آلام کو یاد کرکے آنسو بہایا کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ کلابیہ جن کا مشہور و معروف لقب ام البنین تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات اور باب الحوائج حضرت عباس علیہ السلام کی مادر گرامی حضرت ام البنین بے حد مضطرب و بے چین تھیں کہ اتنے میں خبر ملی کہ بشیر حضرت امام سجاد علیہ السلام کے حکم سے مدینہ میں آیا ہے تاکہ لوگوں کو کربلا کے دلسوز واقعے اور اسیران اہل بیت علیہم السلام کی مدینہ واپسی سے مطلع کرے، بشیر مدینے میں منادی سنا رہا تھا کہ اے اہل مدینہ، اہل بیت طاہرین کا لٹا ہوا قافلہ مدینہ آگيا ہے جب یہ آواز حضرت ام البنین کے کانوں سے ٹکرائی تو عصا کے سہارے گھر سے باہر نکلیں اور بشیر سے سوال کیا اے بشیر میرے حسین کی کیا خبر ہے ؟ بشیر نے کہا خدا آپ کو صبر عطا کرے آپ کا فرزند عباس شہید کردیا گیا ام البنین نے دوبارہ سوال کیا اے بشیر میرے حسین کے بارے میں بتاؤ ؟ بشیر نے آپ کے تمام فرزندوں کی شہادت کو ایک ایک کرکے بیان کیا لیکن حضرت ام البنین مسلسل امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کررہی تھیں اور کہتی جارہی تھیں اے بشیر میرے تمام فرزند اور جو کچھ بھی آسمان کے نیچے ہے سب میرے حسین پر قربان ہیں اس وقت بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی آپ اس دلخراش خبر کو سن کر لرز گئیں اور کہا : اے بشیر تونے میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا آپ نے ایک چیخ ماری اور نالہ و شیون کرنے لگیں ۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جناب ام البنین کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں کو اپنے پیشوا و امام کے نام پرقربان کردیا ۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں ام البنین یعنی بچوں کی ماں ،آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان تھے حضرت علی بن ابی طالب کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی ، حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت عظمی کو تقریبا پندرہ سال کا عرصہ گذر چکا تھا حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل کو جو خاندان عرب کے حسب ونسب سے بہت زيادہ واقف تھے اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ ایک بہادر خاندان سے ایک ایسی خاتون تلاش کریں جس سے بہادر بچے پیدا ہوں ۔
حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ سن اکسٹھ ہجری جیسے حساس اور پر آشوب زمانے میں اسلام کے دوام اور قانون و آئین محمدی کے احیاء کے لئے بہت زيادہ ایثار وقربانی کی ضرورت پیش آئے گی خصوصا حضرت علی علیہ السلام اس بات سے بھی باخبر تھے کہ ان کی شہادت کے دوعشروں بعد کربلا کا واقعہ رونما ہوگا لہذا ضرورت تھی کہ ایسے موقع کے لئے ایک ایسا بہادر و جانباز فرزند موجود ہو جو کربلا میں امام حسین کی نصرت و مدد کرے ۔اسی لئے جناب عقیل نے جناب ام البنین کی حضرت علی علیہ السلام سے سفارش کی کیونکہ ان کا خاندان اور قبیلہ ” بنی کلاب ” عرب کے شجاع و بہادر کے نام سے مشہور تھا۔
جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے حضرت ام البنین عقل و خرد ، مستحکم ایمان اور بہترین صفات سے مزین تھیں اسی لئے علی علیہ السلام ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے تھے ۔
جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولادیں بھی نہایت ہی شجاع وبہادر تھیں لیکن ان کے درمیان حضرت عباس علیہ السلام ایک خاص مقام و مرتبہ کے حامل تھے آپ تمام شہداء تاریخ کے درمیان ستاروں کی طرح چمکتے تھے حضرت ام البنین کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ جوانان اہل بہشت امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ کی دو بیٹیوں زینب و ام کلثوم کی زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کردیں اور بچے اس کمی کا احساس نہ کرسکیں ۔حضرت علی علیہ السلام کے تمام فرزند ایسی شفیق و مہربان ماں کے بابرکت وجود کے ہوتے ہوئے ماں کے غم کو بہت کم یاد کرتے تھے ۔ کیونکہ حضرت ام البنین پیغمبر اسلام کے بچوں کو جو صاحبان فضيلت و کرم تھے انہیں اپنے بچوں پر ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں اور اپنے بچوں سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھیں اور اس راہ میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتی تھیں آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچوں کی حفاظت و محبت کو دینی فریضہ شمار کرتی تھیں ۔چونکہ خداوندعالم نے اپنی معجز نما کتاب قرآن مجید میں تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ان سے محبت کریں ۔
روایت میں ہے کہ جس دن حضرت ام البنین رخصت ہوکر حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف تشریف لائیں اس دن امام حسن وامام حسین علیہم السلام بستر بیماری پر تھے حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا دونوں بچوں کے سراہنے پہنچ گئیں اور مہربان ماں کی طرح ان کی دلجوئی کرنے لگیں جیسا کہ تاریخ کی اہم کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت ام البنین نے ازدواجی زندگی شروع ہونے کے فورا بعد ہی حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہمیں ہمارے اصلی نام فاطمہ کے بجائے ام البنین کے نام سے پکاریں تاکہ دونوں شہزادوں حسن و حسین کواس نام کی وجہ سےاپنی مادرگرامی فاطمہ زہرا کی یاد نہ آئے اور انہیں یاد کرکے ان کے دل مضمحل نہ ہوں۔
آپ حضرت زہرا کے فرزندوں کو بہت زیادہ عزيز رکھتی تھیں اور خود کو ان کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندوں کے ساتھ ان کی بے لوث محبتیں اور ان کے بچوں کی ایثار و قربانی امام حسین علیہ السلام کی راہ میں کارگر ثابت ہوئیں اور تاريخ میں آج بھی ان کے ایثار و قربانی کا ذکر موجود ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت حضرت ام البنین کا بہت زيادہ احترام کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے ایثار و قربانی کا ذکر کرتے تھے ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ پہنچیں تو حضرت ام البنین کی خدمت میں تشریف لائیں اور آپ کے چاروں فرزندوں کی المناک شہادت کی تعزیت پیش کی اور جب بھی آپ کو وقت ملتا آپ کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپ زمانے کے حالات پر خاص نظر رکھتی تھیں حضرت ام البنین بنی امیہ کے ظالم و ستمگر حاکموں کی جارحیت کی جنہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کو شہید کیا تھا ہمیشہ مذمت کیا کرتی تھیں اور ہمیشہ مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہوکر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں ، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات جناب ام البنین کی عظمت و رفعت مسلمانوں کے درمیان مسلم تھی کیونکہ ہرایک کے ذہن و دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ خدا کے نزدیک آپ کی بہت زيادہ عظمت و منزلت ہے آپ نے اپنے جگر گوشوں کو کمال اخلاص کے ساتھ خدا اور اسلام کی راہ میں قربان کیا تھا۔
بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا البتہ بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے ۔آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج بھی نجدیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کررہی ہے۔