امریکی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ پیر کے روز اسرائیل میں امریکا کے نئے سفارت خانے میں ضم ہو جائے گا۔ اس فیصلے نے فلسطینی قیادت کو چراغ پا کر دیا ہے۔
امریکی وزارت خاجہ کے نائب ترجمان روبرٹ پیلاڈینو نے اتوار کے روز بتایا کہ یہ فیصلہ کارکردگی میں اضافے کے لیے کیا گیا ہے تا کہ سفارتی سرگرمی اور امریکی قونصل خانے کی خدمات کا سلسلہ مکمل طور پر جاری رہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ برس اکتوبر میں بیت المقدس میں ایک سفارتی مشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ امر وسیع پیمانے پر مارچ کے اوائل میں متوقع تھا۔
انضمام کے عمل سے فلسطینیوں میں اس اندیشے نے جنم لیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ متنازع بیت المقدس شہر کے حوالے سے فلسطینیوں کے اندیشوں کو خاطر میں نہیں لا رہی۔
ٹرمپ نے دسمبر 2017 میں بیت المقدس کو اسرائیل کا سفارت خانہ تسلیم کر کے عرب دنیا میں غم و غصے کی لہر اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کو بھڑکا دیا تھا۔ امریکی سفارت خانہ مئی 2018 میں تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا گیا تھا۔
فلسطینی رہ نماؤں نے سفارت خانے کی منتقلی کے بعد امریکی انتظامیہ کے ساتھ سفارتی رابطے معلق کر دیے تھے۔ انہوں نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے امن منصوبے کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے امریکی کوششوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ساتھ ہی امریکا پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے حق میں جانب داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
بیت المقدس میں قونصل خانہ فلسطینیوں کے لیے مختص سب سے بڑا مشن ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے اس معاملے پر وسیع بین الاقوامی سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مشرقی بیت المقدس اُس ریاست کا دارالحکومت ہو جو وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔