عراق کے شہر موصل کے نزدیک دریائے دجلہ میں گنجائش سے زائد مسافروں سے بھری کشتی ڈوبنے سے خواتین اور بچوں سمیت تقریباً100 افراد ہلاک اور متعدد لاپتہ ہوگئے۔
مرنے والوں میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جو دریا کی تند و تیز موجوں کا سامنا نہ کر سکے اور چند منٹ قبل دریا کے دوسرے کنارے پر واقع ریسٹورنٹ اور ایمیوزمنٹ پارک میں جشن مناتے ہوئے لوگوں نے انہیں ان کو اپنے سامنے ڈوبتے ہوئے دیکھا۔
وزارت داخلہ کے آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حادثے میں 94افراد ہلاک ہو گئے جہاں مقامی افراد نے انہیں حالیہ عرصے میں کشتی ڈوبنے کا سب سے بدترین واقعہ قرار دیا ہے۔
عراق کے شمالی صوبے نینوا میں سول ڈیفنس کے سربراہ کرنل حسام خلیل نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ شمالی صوبے نینوا میں مقامی افراد اور سیاحوں کی بڑی تعداد جشن بہاراں کے سلسلے میں ‘نوروز’ کا تہوار منانے کے لیے موجود تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سیاحتی علاقے میں لوگ نوروز کا جشن منا رہے ہیں اور یہ کشتی لوگوں کو مشہور سیاحتی مرکز غبت لے کر جا رہی تھی لیکن کشتی میں زیادہ مسافر سوار ہونے کے سبب یہ قریبی جزیرے پر پہنچنے سے قبل ہی دریا کے بیچوں بیچ الٹ گئی۔
ایک ریسکیو اہلکار عبدالرزاق فلیح نے کہا کہ انہوں نے 20 افراد کی لاشیں نکالی ہیں جس میں خواتین، بچے اور نوجوان سب شامل ہیں، یہ انتہائی مشکل صورتحال ہے۔
عبدالجبار الجبوری نامی ایک شخص نے پولیس کو التجا کی کہ اس کی بیوی اور بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد کی جائے، اس کی بیوی اور تین بیٹیاں پانی میں ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں حادثے کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کشتی الٹنے کے بعد اس میں سوار افراد اپنے بچاؤ کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئے اور دریا کے کنارے پر موجود افراد نے انہیں بچانے کے لیے کپڑوں سمیت ہی دریا میں چھلانگ لگا دی۔
ترکی میں واقع پہاڑوں سے برف پگھلنے کے سبب ان دنوں دریائے دجلہ میں طغیانی ہوتی ہے اور بارش کے سیزن کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
نینوا کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر فلاح التائی نے کہا کہ اب تک فارنسک ڈپارٹمنٹ میں 60 سے زائد لاشیں لائی جا چکی ہیں جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اور ابھی بھی والدین کی بڑی تعداد اپے بچوں کو ڈھونڈ رہی ہے۔
خلیل نے دعویٰ کیا کہ فیری تکنیکی وجہ سے ڈوبی اور علاقے میں لوگوں کو بچانے کے لیے زیادہ کشتیاں نہ ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ کشتی میں 80 سے زائد مسافر سوار تھے لیکن ایک سالہ شخص نے کشتہ میں وار افراد کی تعداد دگنی بتائی۔
23سالہ کرد شہری سعودی عزیز نے کہا کہ وہ دریا پار کرنے والی دوسری کشتی میں سوار تھے اور اس فیری میں حد سے زیادہ افراد سوار تھے جن کی تعداد کم از کم 150 تھی اور اسی وجہ سے الٹ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو اپنے سامنے کسی پلاسٹک بیگ کی مانند ڈوبتے ہوئے دیکھا اور دریا میں کود کر ایک 20سالہ لڑکی کو بچانے میں کامیاب رہے۔
عراق کے وزیر اعظم عدل عبدالمہدی نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔