میڈرڈ: یورپی ملک اسپین میں 4 سال سے کم عرصے کے دوران تیسرے پارلیمانی انتخابات میں ملک کے سوشلسٹ وزیر اعظم کامیاب ہوئے ہیں تاہم حکومت کرنے کے لیے ضروری تعداد نہ ہونے سے سیاسی مستقبل بے یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بائیں بازوں کی سوشلسٹ پارٹی نے دوبارہ ہونے والے انتخابات میں تقریباً 29 فیصد ووٹ حاصل کیے اور وہ حکومت بنانے کی کوشش کرے گی، جو یورپی یونین میں سوشلسٹ حکومتوں کے صرف ایک مٹھی برابر ہوگی۔
تاہم اسپین کے پارلیمنٹ میں ڈپٹی کانگریس کی 350 نشستوں میں سے سوشلسٹ پارٹی صرف 124 نشستیں حاصل کرسکی ہے اور اسے قانون سازی کے لیے دیگر چھوٹی حریف جماعتوں کی حمایت کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: اسپین سے علیحدگی، کیٹلونیا کے گرفتار رہنماؤں کے حق میں مظاہرے
ان نتائج نے 2 پارٹیوں کی سیاست کے خاتمے کے بعد سے اسپین کے لیے عدم استحکام کی طرف شکوک و شہبات پیدا کردیے ہیں جبکہ وزیر اعظم پیڈرو سانچیز ایک ایسے ماحول میں ان حریفوں کے ساتھ اتحاد قائم کررہے ہیں جنہوں نے 2017 میں کیٹیالونیا کے ناکام علیحدگی میں کردار ادا کیا تھا۔
اس سارے معاملے میں سب سے اہم پیش رفت ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ووکس کا ابھر کر سامنے آنا ہے جو 1975 میں آمر فرانسسکو فرانکو کی موت کے بعد سے دائیں بازو کی بولنے والی جماعت نہیں رہی تھی۔
پیڈرو سانچیز کو 29 فیصد ووٹ ملنے کے باوجود بھی وہ واضح اکثریت حاصل کرنے سے کافی دور ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں انتہائی بائیں بازو کے گروپ اور ممکنہ طور پر کیٹلان علیحدگی پسند جماعت جیسوں سے معاہدے کرنے ہوں گے جیسے انہوں نے گزشتہ 10 ماہ میں کیے ہیں۔
اسپین کے حالیہ انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں قدامت پسند پاپولر پارٹی (پی پی) کو ناکامی ہوئی جبکہ انتخابات میں حصہ لینے والی 3 دائیں باز کی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوئیں۔
الیکشن حکام کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 75 فیصد رہا جو گزشتہ 2016 کے انتخابات میں 66.48 فیصد تھا۔