شام کے تیسرے بڑے شہر حمص میں پھنسے ہوئے عام شہری اپنا ساز وسامان لیے باغیوں کے زیر تسلط علاقے کی ایک گلی میں بیٹھے ہوئے ہیں
اقوام متحدہ نے شام میں باغیوں کے گڑھ حمص میں اپنی امدادی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ کئی گھنٹوں کے مذاکرات کے بعد کیا گیا جن کا مقصد متحارب گروہوں کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کو بچانا تھا۔
اقوام متحدہ کی گاڑیوں نے خوراک کے کنٹینر شہر میں پہنچانا شروع کر دیے ہیں جبکہ دیگر امدادی تنظیموں نے بھی شہر سے عام شہریوں کے انخلا کے لیے بسوں کے بندوبست کا آغاز کر دیا ہے۔
جنگ بندی کے موجودہ معاہدے کی معیاد بدھ 12 فروری کی رات ختم ہو رہی ہے، تاہم شامی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس میعاد کو بڑھانے کی اجازت دے دے گی۔
حمص میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار لِیز ڈُوسٹ کا کہنا ہے کہ شہر کو خوراک کی ترسیل میں ہر ممکن احتیاط کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ چند دن قبل شہر کی قدیمی علاقے میں ہلالِ احمر کی گاڑیوں پر حملہ ہوگیا تھا اور تنظیم کے امدادی کارکن کچھ دیر کے لیے حملے میں گھِر گئے تھے۔
عام شہریوں کا انخلا
“حمص کے گورنر طلال برازی کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو جنگ بندی کے موجودہ عارضی معاہدے کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے مقامی سربراہ یعقوب الہلو نے کہا کہ یہ بات ’انتہائی ضروری‘ ہے کہ شہر سے نکل مکانی کرنے والوں کی امداد جاری رکھی جائے۔”
دریںِ اثنا روس نے اس خیال کو دوبارہ رد کر دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایک قرارداد کے ذریعے شام کے تمام متحارب گروہوں سے کہے کہ وہ امدادی کارکنوں کو ملک بھر میں آزادانہ آمد ورفت کی اجازت دیں۔
اُدھر شامی فوج نے یبرود کے شہر پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ لبنان کی سرحد کے قریب یہ علاقہ حکومت مخالف جنگجوؤں کے قبضے میں ہے۔
منگل کو جنیوا میں جاری شامی حکومت اور اس کے مخالفین کے وفد کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دن کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
شامی فوجوں نے گذشتہ 18 ماہ سے حمص کا محاصرہ کر رکھا ہے اور گذشتہ آخرِ ہفتہ کے دنوں میں تین روزہ جنگ بندی کے ایک معاہدے کے تحت شہر میں گھرے ہوئے عام لوگوں کو وہاں سے نکالا گیا تھا۔ بعد میں اس معاہدے کی میعاد میں بدھ کی رات تک کا اضافہ کر دیا گیا تھا، لیکن منگل کے روز امدادی کارروائیاں ایک مرتبہ پھر روک دی گئیں تھیں۔ اقوام متحدہ اور شامی حکام کے مطابق امداد میں اس خلل کی وجہ انتظامی مسائل تھے۔
حمص کے گورنر طلال برازی کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو جنگ بندی کے موجودہ عارضی معاہدے کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے مقامی سربراہ یعقوب الہلو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ بات ’انتہائی ضروری‘ ہے کہ شہر سے نقلِ مکانی کرنے والوں کی امداد جاری رکھی جائے۔