عرب دنیا اور مشرق کے تاریخی ورثے میں مشہور پرندہ “اُلّو” نحوست کی علامت نہیں رہا۔ اپنی ظاہری خوب صورتی اور بڑی آنکھوں کے باوجود یہ عربوں میں بدشگونی کے ساتھ مربوط اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اسلام نے اپنی ابتدا میں ہی ان تمام بلا جواز اور من گھڑت نظریات کی جڑ کاٹ دی۔
اگرچہ “اُلّو” کو فرعونی اور یونانی جیسی قدیم تہذیبوں میں حکمت و دانش مندی کی علامت قرار دیا جاتا تھا تاہم یہ بات عربوں کے ہاں کام نہ آئی اور ابھی تک بعض لوگ اس پرندے کو کسی جواز کے بغیر سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سعودی کیمرہ مین فیصل ہجول کی جانب سے اُلّو کی کھینچی گئی تصاویر ان کی برتری اور فوٹوگرافی کے کئی مقابلے جیتنے کا ذریعہ بن گئیں۔
سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے شہر قطیف میں رہنے والے فیصل ایک امیچور فوٹوگرافر ہیں۔ اُلو کے ساتھ اپنی قریبی دوستی کے حوالے سے فیصل نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “جب میں اس پرندے کو نظروں میں لایا تو دیکھا کہ اس نے انڈا دیا ہوا تھا۔ لہذا میں نے اس کے مقام کو خفیہ رکھا تا کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بعد ازاں میں نے اس کی تصاویر بنائیں”۔
فیصل نے مزید بتایا کہ “وقت کے ساتھ میں اس پرندے کے قریب ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے بچوں کو ہاتھوں میں اٹھانے لگا۔ اس طرح مزید قریب سے تصاویر لینے کا موقع مل گیا۔ اس پرندے کی زندگی رازوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے اس کے ساتھ پانچ ماہ گزارے ہیں اور اس سے متعلق نحوست اور بدشگونی کے حوالے سے میرا نظریہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے”۔
مادہ اُلّو انڈے کی پرورش کی ذمے داری سنبھالتی ہے جب کہ نر اُلّو گھونسلے سے دور ہوتا ہے اور اس کا کام ماں اور بچوں کے لیے خوراک کا بندوبست کرنا ہے۔ یہ سلسلہ پرورش کے پورے عرصے تک جاری رہتا ہے۔
فیصل کا کہنا ہے کہ وہ اُلّو کی تصاویر کے ذریعے اس کے متعلق ذہنیت کو تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں۔