اقوام متحدہ کی فلاحی کاموں کی سربراہ ویلری آموس نے سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ شام میں لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں مزید امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔
اس معاملے پر قرارداد لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ’ناقابلِ قبول‘ ہے کہ شامی حکومت اور باغی دونوں ’جارحانہ‘ انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جمعرات کو نیویارک میں سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے ویلری آموس نے کہا کہ ’یہ قابل قبول بات نہیں کہ کونسل کے ارکان کی جانب سے اقدامات کے مطالبات کے چار ماہ بعد بھی تنازعے میں شریک تمام فریقین کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل اور کھلی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تمام فریقین شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں جنگ جاری ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔‘
حمص میں امداد کی فراہمی اور شہریوں کے انخلا کے لیے جنگ بندی میں مزید تین دن کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے انسانی امور کی نائب سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ معاہدہ مسئلے کا طویل المدتی حل نہیں ہے۔
ویلری آموس کا کہنا تھا کہ ’چودہ ماہ قبل میں نے سلامتی کونسل کو حمص کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ ہم اب تک حمص سے 1200 افراد کو باہر نکالنے اور 2500 افراد کو خوراک اور ادویات پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں‘۔
“یہ قابل قبول بات نہیں کہ کونسل کے ارکان کی جانب سے اقدامات کے مطالبات کے چار ماہ بعد بھی تنازعے میں شریک تمام فریقین کی جانب سے انسانی حقوق کی مسلسل اور کھلی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ فریقین شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں جنگ جاری ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔”
بیرونس ویلری آموس
’اگر اس کام میں 14 ماہ لگے ہیں جب کہ اب بھی ڈھائی لاکھ افراد محصور ہیں اور تیس لاکھ تک رسائی مشکل ہے، تو مجھے یہ کہنے میں بہت دقت ہو رہی ہے کہ یہ ایک درست ماڈل ہے۔‘
شام میں حالیہ چند ہفتوں میں لڑائی میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے اور فریقین جنیوا میں جاری امن مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ چاہتے ہیں۔
شامی صدر بشار الاسد کی حکومت اور شامی اپوزیشن گروہوں کے درمیان یہ بات چیت تاحال بےنتیجہ رہی ہے اور بدھ کو بھی فریقین مشترکہ ایجنڈے پر اتفاقِ رائے میں ہی ناکام رہے۔
تاہم شام کے لیے عرب لیگ اور اقوامِ متحدہ کے نمائندے الاخضر ابراہیمی پرامید ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں امریکی اور روسی حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس تعطل کو دورے کرنے کی کوشش کے لیے تیار ہیں۔
شام میں تین برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں شہری متاثر ہوئے ہیں تاہم سلامتی کونسل بھی شام میں امداد کی فراہمی کے معاملے پر ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس معاملے پر سخت الفاظ پر مبنی قرارداد لانے کی حامی ہیں لیکن روس اس کے حق میں نہیں اور اس نے متبادل مسودہ پیش کیا ہے۔
شام میں مارچ 2011 میں حکومت مخالف بغاوت کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 95 لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔