امریکا اور ایران کے درمیان ممکنہ ٹکراو کی خبریں سرخیوں میں آئیں تو یہ بھی اندازے شروع ہوگئے کہ دونوں ممالک کی طاقت کی سطح کیا ہے؟
سبھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا دنیا کی بڑی طاقت ہے اور اس کی بحریہ کی طاقت کی شہرت پوری دنیا میں ہے ۔ جہاں تک ایران کی طاقت کا سوال ہے تو اس بارے میں ایک اہم مثال 8 سالہ جنک کی دی جا سکتی ہے جو ایران اور عراق کے درمیان ہوئی ۔ عراق کو امریکا، سوویت یونین، علاقے کی عرب حکومتوں سمیت متعدد ممالک سے مدد مل رہی تھی اور ایران اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے جنگ کر رہا تھا ۔ اس جنگ میں ایران کی فتح ہوئی ۔
علاقے میں ایران کے اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہے ہیں اور علاقے میں ایران کی حکمت عملی اتنی دقیق ہے کہ امریکا جیسی طاقتوں اس طرح پریشان کئے ہوئے ہے کہ امریکا نے اپنے طیارہ بردار جنگي بیڑے یوایس ابراہم لنکن کو علاقے سے تقریبا 700 کیلومیٹر کے فاصلے پر روک دیا ہے۔
اس کا سبب یہ بتایا جا رہا ہے کہ امریکا میں یہ تشویش پیدا ہو گئی کہ خلیج فارس میں کہیں اس کے جنگی بیڑے پر کوئی ایسا حملہ نہ ہو جائے جو اسے شدید نقصان پہنچا دے۔ ابراہم لنکن طیارہ بردار جنگی بیڑے کی قیمت 30 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ جہاں یہ امریکی بحریہ کی طاقت ہے وہیں تشویش کا موضوع بھی ہے کہ اگر اسے نشانہ بنایا گیا تو شدید نقصان ہوگا۔
ایران کی سپاہ پاسداران کے کمانڈرز کے وہ بیانات عالمی میڈیا کی سرخیاں بنے ہیں جن میں کمانڈرز نے خفیہ ہتھیاروں کی بات کی ہے۔ جنرل علی فدوی نے کہا کہ امریکی طیارہ بردار جنگی بیڑا،جنگی جہاز اور جنگی کشتیاں سب ہماری نظر کے سامنے ہیں ۔
ایک ایرانی عہدیدار نے خفیہ اسلحے کی بات کہی اور کہا کہ اس کی مدد سے امریکی جنگی بیڑے کو سمندر کی تہہ میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ جنرل مرتضی قربانی نے کہا کہ امریکا نے علاقے میں جنگی بیڑا بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن اگر انہوں نے کوئی بھی بیوقوفی کی تو امریکا کے دو طیارہ بردار جنگی بیڑے غرقآب ہو جائیں اور اس کے لئے دو خفیہ میزائلوں کا استعمال کیا جائے گا ۔
یہ بات تو امریکا کے اندر بھی کہی جا رہی ہے کہ امریکا اس علاقے میں اپنے جنگی بیڑے بھیج رہا ہے اور فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے لیکن جہاں اس سے امریکا کی فوجی موجودگی میں اضافہ ہوگا وہیں ایران کو نئے اہداف بھی ملیں گے۔ تجزیہ نگار یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ امریکا کی جانب سے ایران کے لئے اچھا تحفہ ہوگا۔ ایران انہیں بڑی آسانی سے نشانہ بنائے گا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شدید تشویش ایران کے ان اتحادیوں سے ہے جو عراق، شام، لبنان اور یمن میں کافی طاقتور بن چکے ہیں ۔ امریکا کی تشویش کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں اس نے جن حکومتوں کو اپنا اتحادی بنایا ہے وہ اتنی کمزور ہیں کہ خود امریکی صدر کہتے ہیں کہ اگر امریکا کی حمایت ختم ہو جائے تو یہ حکومتیں دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ پائیں گی ۔
دوسری جانب بحران شام اور عراق کے بحران میں جن انتہا پسند تنظیموں کا سہارا امریکا نے لیا وہ ایک طرف تو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور دوسرے انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
جو حالات ہیں ان میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی جنگ امریکا کے مفاد اور اس کے اہداف کو پورا نہیں کر سکے گی بلکہ جنگ کا آغاز ہو گیا تو امریکا کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا اور امریکا اس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اسی لئے ایران بارہا یہ تاکید کر رہا ہے کہ کوئی جنگ ہونے والی نہیں ہے۔