وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں جن ارکان پارلیمنٹ نے حلف لیا ان میں امت شاہ،نتن گڈکری،ارجن رام میگھوال، پرکاش جاوڈیکر،مختار عباس نقوی، رامداس اٹھاولے، پیوش گوئل،روی شنکر پرساد، بابل سپریو، جیتندر سنگھ، نرملا سیتارمن، راؤ اندرجیت، کرن رجیجو،سریش انگاڑی،پرہالد جوشی، رام ولاس پاسوان، سنتوش گنگوار، رمیش پوکھریال، راج ناتھ سنگھ، کیلاش چودھری،گجیندر سنگھ شیخاوت، اروند ساونت، دھرمیندر پردھان،وی کے سنگھ، نریندر سنگھ تومر، سنجیو بالیان، نتیا نند رائے، اسمرتی ایرانی، پرہلاد پٹیل، سدانند گوڑا، گری راج سنگھ، ہردیپ سنگھ پوری، شریپاد یسو نائک، ڈاکٹر ہرش وردھن ڈاکٹر مہیندر ناتھ پانڈےاور ایس جے شنکر شامل ہیں۔
وزرا کو صدر جموریہ ہند رام کوند نے حلف دلوایا۔ اس تقریب میں سات ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی جس میں سماج کے ہر میدان سے افراد تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری پاری میں ان کے کئی پرانے ساتھی ان کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ حلف برداری کی تقریب میں کچھ سابق وزیر مہمانوں کے ساتھ بیٹھے نظر آئے جن میں سشما سواراج، مینکاگاندھی،منوج سنہا،انو پریا پٹیل،مہیش شرما،ستپال ملک،جے پی نڈا، جینت سنہا، راج وردھن سنگھ راٹھور، اوما بھارتی وغیرہ
یہ تصویر صاف ہو گئی ہے کہ سشما سواراج اس بر وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں نہیں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کی صحت ہو سکتی ہے۔ اس بات کے امکان بڑھ گئے ہیں کہ جے شنکر نئے وزیر خارجہ ہوں گے۔
حلف برداری سے قبل این ڈی اے میں شگاف، جے ڈی یو اور اپنا دل مودی حکومت سے باہر
وزیر اعظم نریندر مودی کچھ ہی دیر میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم کا حلف لیں گے لیکن اسے پہلے ہی این ڈی میں تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے جے ڈی یو این ڈی اے حکومت سے بہار ہو گئی ہے۔ وہیں اپنا دل کے بھی حکومت میں شامل نہ ہونے کی اطلاع ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جے ڈی یو کو امید تھی کہ اس کے کوٹے سے تین وزرا کو حلف دلوایا جا ئے گا جن میں سے دو کابینہ وزیر ہوں گے اور ایک وزیر مملکت لیکن بی جے پی کی طرف سے محض ایک کابینہ وزیر بنائے جانے کی پیشکش کی گئی۔ وہیں اپنا دل کی انوپریا پٹیل کو این ڈی اے کی جانب سے فون ہی نہیں کیا گیا ہے۔
جے ڈی یو کے بششٹھ نارائن نے کہا کہ وہ مودی حکومت میں حصہ نہین لیں گے لیکن اتحاد جاری رہے گا اور وہ این ڈی اے کا حصہ بنے رہیں گے۔
دوسری بار ملک کے وزیر اعظم بننے والے نریندر دامودر داس مودی کی پیدائش 17 ستمبر 1950ء کو گجرات کے ضلع مہسانہ میں ایک غریب خاندان میں ہوئی تھی۔ وہ والد دامودر داس اور ماں ہیرا بین کی تیسری اولاد ہیں۔
گزر بسر میں تنگی کی وجہ سے وہ اپنے والد دامودر داس کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ والدہ ہیرا بین گزر بسر میں مدد کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ بچپن میں خود نریندر مودی اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے بیچا کرتے تھے جیساکہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران مودی کہاکرتے تھے۔ ان کے سوانح نگار کے مطابق بچپن میں ان کے ذہن میں سنیاسی بننے کا بھی خیال آیا تھا اور وہ کچھ دن راماکرشن مشن میں بھی جا کر رہے۔آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے آر ایس ایس سے اپنا تعلق وابستہ کیا۔ 1967ء میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پر کام کر نا شروع کر دیا۔
کم عمری میں طے شدہ شادی کی وجہ سے انہوں نے ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد گھر چھوڑ دیا اور دو سال تک شہر در شہر گھومتے رہے۔ گجرات لوٹنے سے قبل وہ کئی مذہبی مراکز کی زیارت کر چکے تھے۔ 17 سال کی عمر میں جشودا بین سے ان کی شادی ہوئی لیکن دونوں کی شادی زیادہ دن تک نہیں چلی۔
مودی کا سیاسی سفر 1984ء میں شروع ہوا۔ جب آر ایس ایس نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھے۔ انہوں نے لال کرشن اڈوانی کی سومناتھ – ایودھیا یاترا اور مرلی منوہر جوشی کی کنیاکماری – کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ سنہ 1995ء میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کی تشہیر کی ذمہ داری نبھائی تھی۔1971ء میں وہ سنگھ کے مکمل رکن بن گئے۔ ہنگامی صورت حال کے دوران میں انہیں روپوش ہوجانا پڑا۔
وہ 1990میں بی جے پی کے قومی سکریٹری کے طور پر دہلی آئے اور پنجاب‘ہریانہ، ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں اور شمالی ہندوستان میں بی جے پی کی توسیع کا کام سونپا گیاتھا۔ بی جے پی نے اپنے بل پر ہماچل پردیش میں 1998میں اپنی حکومت بنائی تھی۔ بعد میں مسٹر مودی کو ند آچاریہ کی جگہ پارٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ بطور جنرل سکریٹری 1998اور 1999کی بی جے پی کی جیت ان کا اہم کردار تھا۔