’ اسرائیل مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں کی فکروں کے اختلاط کی پیداوار ہے چونکہ انہوں نے اسرائیل کو وجود میں لا کر جہان اسلام کو لوٹنے اور اسے تقسیم کرنے کا کام شروع کردیا ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام استعماری طاقتیں اسرائیل کی مدد و پشت پناہی کر رہی ہیں’: امام خمینی
یوم القدس کو لیکر قرآنی مبانی سے گفتگو کی ضرورت اس لئے ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے افکار کی روشنی میں جب ہم یوم القدس کو پیش کرتے ہیں تو جہان اسلام میں کبھی کبھی بعض ایسی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں جنکے پیش نظر یہ مسئلہ جس طرح ہے کھل کر سامنے نہیں آ پاتا اور ایک فرقے کے فقیہ و مجتہد کی جانب سے بیان کئے گئے مسئلہ کے طور ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنا ایک ایک نظریہ ہے، اور چونکہ وہ شیعہ ہیں لہذا شیعت کے افکار سے ہی اس نے فروغ حاصل کیا ہے اسکا جہان اہل سنت سے تعلق نہیں ہے ،لہذا ممکن ہے اس بات کی بنیاد پر بعض مقامات پر ایک شیعہ عالم کی جانب سے قدس کے مسئلہ کو پیش کرنا بعض حد بندیوں کا سبب بن جائے اور اس سے اس طرح استفاد ہ نہ کیا جا سکے جیسا کہ اسکا حق ہے ،ہم نے کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ کو قرآنی نقطہ نظر سے بیان کیا جا سکے ۔
مسئلہ قدس کی وضاحت قرآن سے ہی کیوں ؟
قدس کے مسئلہ کو قرآن سے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ قرآنی گفتگو سے تمام اسلامی ممالک، تمام مسلمان اپنے تمام تر رجحانات و میلانات کے باوجود بہر مند ہو سکتے ہیں، مختلف ممالک میں آج ہمارا ایک بڑا درد اور بڑی مشکل یہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک صہیونی حکومت سے سیاسی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور انکے صہیونی ریاست سے سیاسی تعلقات ہیں ، لہذا جب بھی قدس کی بات ہوتی ہے تو بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایرانی آئیڈیالوجی کا الزام سامنے آتا ہے اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو قدس کے سلسلہ سے کچھ کر رہا ہے وہ ایرانی طرز فکر سے متاثر ہو کر کر رہا ہے، لیکن اگر گفتگو قرآنی ہو جائے تو اب ایران یا ایران کے علاوہ کہیں سے اسکا تعلق نہیں رہے گا اور ہم گفتگو کو بغیر کسی کی چھاپ پڑے آگے بڑھا سکتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں ہم اسے ایک خاص قوم کے درمیان محدود ہونے سے نکال سکتے ہیں ، کہ یہ کسی خاص علاقے میں منحصر نہیں ہے اسے ملک و قوم سے ماواراء ہو کر جب بیان کیا جائے گا تو ہم اس کے سایے میں بہت سے الگ الگ نظریات رکھنے والے افراد کو جمع کر سکتے ہیں جو قرآنی محور کے تحت قدس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم اپنی گفتگو کو دوحصوں میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے
پہلے حصہ میں ہم روز قدس کی منزلت اسکے مقام و مرتبہ کو بیان کریں گے فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے افکار کی روشنی میں صہیونی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہونے کو بیان کریں گے اور دوسرے مرحلہ میں صہیونی ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہونے اور صہیونیت کے خلاف لڑنے کے قرآنی مبانی کو واضح کریں گے ۔
اسرائیل کے خلاف آیت اللہ خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جد و جہد کا سابقہ
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے تقریبا اپنی ۳۰۰ تقاریر اور پیغامات میں اسرائیل کے موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے، درحقیقت آپ نے مختلف انداز میں اس رجیم کی رد اور اس سے مقابلہ کے لئے مختلف نکات بیان کئے ہیں ۔
یہ اپنے آپ میں ایک قابل توجہ و قابل ملاحظہ اعداد و شمار ہیں، بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دئے جانے والے بیانات یا آپکی اسرائیل مخالف سرگرمیاں انقلاب کے بعد یا یوم القدس کے بعد شروع ہوتی ہیں ،جبکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی تحریک کے آغاز میں ہی اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اسرائیل سے مخالفت کا ایک بڑا حصہ صہیونی حکومت کے ایرانی کے شہنشاہی نظام سے وسیع پیمانے پر قائم تجارتی تعلقات کی طرف پلٹتا ہے جس کے بموجب آپ نے اسرائیل کی مخالفت کی مثال کے طور پر اسرائیل و اعراب کی جنگ میں عربی ممالک نے تیل کی فراہمی روک دی تھی لیکن ایران نے عربی ممالک کی جگہ تیل بیچنا شروع کر دیا اور یوں اسرائیل کے خلاف ایک بڑے محاذ کی تشکیل میں رکاوٹ بنا ۔
اسی طرح امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعلقات اس بات کا سبب بنے کہ اسرائیل کی پوزیشن ایران میں مضبوط ہو بالکل یہی کردار جو علاقے میں سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کے لئے ادا کر رہا ہے ، سعودی عرب امریکہ کے ساتھ وسیع تعلقات کی بنیاد پر اس کوشش میں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھاوا دے ، دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی رجیم اور امریکہ کے ما بین وسیع تعلقات کی بنا پر ہر وہ ملک جس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر اور مضبوط ہوں گے خود بخود اسرائیل سے بھی رشتے مضبوط ہونگے اس وقت سعودی عرب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ، سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر اسرائیل سے بھی اچھے تعلقات بن رہے ہیں ۔
بہائی ایران میں اسرائیل کے نمائندے
اس گفتگو کے حاشیے میں ہم بات کہی جا سکتی ہے کہ پہلوی دور حکومت میں ایران میں اسرائیل کے اثر اور اسکی موجودگی کا بڑا حصہ بہائیوں کی طرف پلٹتا ہے ، بہر حال بہائی شیعوں کے درمیان ایک منحرف فرقے کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ انکا مرکز اسرائیل کے شہر حیفا میں ہے ، علاوہ از ایں ایران میں سب سے طولانی دور تک وزیر اعظم کے منصب پر قائم رہنے شخص کا تعلق بھی بہائیوں سے ہے چنانچہ ایران میں سب سے زیادہ وزارت عظمی کے عہدے پر رہنے والے شخص کا نام ہویدا ہے ۔
اسی بنیاد پر ہویدا کی وزارت عظمی کے زمانے میں ایران میں اسرائیل کی موجودگی بہت واضح طور پر نظر آتی ہے ۔
اور ہویدا ہی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ایران سے اسرائیل کی طرف سب سے زیادہ ہجرتیں ہوئیں یعنی ایران سے اسرائیل کی طرف جانے والے افراد کا زیادہ تر تعلق اسی دور سے ہے جب ہویدا کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی ، اسکا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنی تحریک کا آغاز اس دور میں کر رہے ہیں جب پہلوی حکومت کے صہیونی حکومت سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات بہت گہرے ہیں البتہ ان تعلقات کا ایک خاصہ حصہ اقتصادی تعلقات سے مخصوص ہے ۔
اسرائیل کے خلاف نبرد آزمائی کا آغاز
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ۱۹۶۳ ء میں اسلامی انقلاب کی تحریک کے آغاز میں اسرائیل سے مقابلہ کی گفتگو کا آغا ز کیا اور ایرانی عوام کے نام اپنے نوروز کے دئے جانے والے ۱۹۶۴ میں آپ نے حکومت وقت کے اوپر حملہ آور ہوتے ہوئے اپنے پیغام میں اس بات کا اعلان کیا کہ اس دور کی پہلوی حکومت اسرائیلی مفادات کی تکمیل کے سلسلہ سے مصروف عمل ہے مختلف صوبوں کی تنظیموں اور انجمنوں کی بحث میں بھی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی مخالفت کی وجہ صہیونیوں کا تسلط ہے ۔اس مقام پر بھی آپ اس سلسلہ سے سنجیدہ طور پر وارد عمل ہوتے ہوئے اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہیں ، البتہ بعض مقامات پر اسرائیلی رجیم کو خصوصی طور پر بعض مختلف شہر کے لوگوں کے لئے واضح کرتے ہیں مثال کے طور پر ۱۹۶۴ میں علماء یزد کے جواب میں لکھے گئے ایک خط کے جواب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اسرائیل کے خطرات کو بیان کرتے ہوئے پہلوی حکومت کو انتباہ دیتے ہیں۔
کیپیٹالیزشن
کیپیٹالیزشن capitulations کے موقع پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے جب اس مسئلہ پر اعتراض جتاتے ہوئے اپنی مخالفت کے دلائل کو بیان کیا تو اس وقت بھی آپ امریکہ اور اسرائیل کو ایک ساتھ قرار دیتے ہیں گو کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ان دونوں میں کسی بھی طرح کی جدائی کے قائل نہیں ایک ایک ہی چٹے بٹے کی صورت دونوں کو دیکھتے ہیں
امام خمینی کی جانب سے اسرائیل کے مقابل ایک زبردست اور سخت ترین موقف اس وقت سامنے آتا ہے جب آپ ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ میں قم کی مسجد اعظم کی اپنی معروف تقریر کرتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ، یہاں پر آپ اسرائیل اور ایرانی شاہ کے خلاف لوگوںسے ڈٹ جانے لئے کہتے ہیں اور شا ہ کو اسرائیل کا حلیف قرار دیتے ہوئے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام مزاحمتی قدموں میں اسرائیل کے اوپر یلغار نظر آتی ہے ، آپ ۱۹۶۴ کے محرم میں بھی شاہ ایران کے اسرائیل سے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس پر تنقید کرتے ہیں یہاں تک کے ملک بد ر ہونے کے بعد تک یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے ، مثلا ۱۹۶۳ میں فلسطینی مجاہدین اور فدائین کے ایک گروہ کے جواب میں اسرائیل سے مقابلہ کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ زکات اور صدقات کے مصارف کو فلسطین کا دفاع کرنے والوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے اتنا ہی نہیں ۱۹۷۱ میں شہنشاہی نظام کے ۲۵۰۰ سالہ جشن کے موقع پر آپ اس جشن کے ساتھ اسرائیل کے اس جشن میں موجود ہونے پر اعتراض کرتے ہیں ۔
شہنشاہی نظام کا اسرائیل سے تعاون امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی جانب سے اسرائیلی رجیم کی مخالفت کا ایک پہلو :
۱۹۷۸ میں اسلامی انقلابی کی کامیابی سے کچھ پہلے ظاہر ستمبر کے مہینے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ایک قابل غور اور زبردست تقریر کی ہے جس کے ایک حصہ میں آپ فرماتے ہیں :’’وہ چیزیں جنہوں نے ہمیں شاہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ان میں ایک چیز یہ ہے کہ شاہ اسرائیل کا تعاون کرتا ہے ‘‘ یعنی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ ہمارے انقلاب کے اسباب میں ایک سبب یہ ہے کہ شاہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے اسکا تعاون کرتا ہے ، آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ، ’’ میں نے ہمیشہ اپنی جانب سے بیان شدہ مطالب میں یہ بات کہی ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے کی ابتداء سے ہی شاہ ایران اسرائیل کی مدد کر رہا تھا اس کے ساتھ لگا ہوا تھا ، اور جب اسرائیل و مسلمانوں کے درمیان جنگ اپنے عروج پر تھی شاہ مسلمانوں کے تیل کو غصب کر کے اسرائیل کو دے رہا تھا اور یہ ہماری شاہ سے مخالفت کا ایک سبب ہے ‘‘
اس مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ انقلاب اسلامی کے ایک محور کو اسرائیل سے مقابلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ، یہ ایک ایسا اہم پوائنٹ ہے جسے کم ہی بیان کیا جاتا ہے ، یہ اپنے آپ میں ایک انقلاب کے لئے بڑی بات ہے کہ اسکا معمار اپنی لڑائی کے ایک محور کو صہیونی ریاست کے خلاف جدو جہد سے مخصوص کرے ۔
اسرائیل کا سرچشمہ
۱۹۷۳ میں امریکہ و کینیڈا کے مقیم مسلمان اسٹوڈنس امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے نام ایک خط لکھتے ہیں :
امام خمینی رضوان اللہ تعالی ایک مختصر لیکن دلچسب جواب لکھتے ہیں اور اس میں اسرائیل کی حقیقیت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اسرائیل مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں کی فکروں کے اختلاط کی پیداوار ہے چونکہ انہوں نے اسرائیل کو وجود میں لا کر جہان اسلام کو لوٹنے اور اسے تقسیم کرنے کا کام شروع کردیا ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام استعماری طاقتیں اسرائیل کی مدد و پشت پناہی کر رہی ہیں ‘‘ یہ امام خمینی کا دو ڈھائی سطروں کا خط وہ ہے جو اس دور میں بین الاقوامی صورت حال کو سامنے رکھ رہا ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد عالمی طاقتوں کی صورت حال کیا تھی اور اسی کے ساتھ یہ خط اسرائیل کی حقیقت کو بھی بے نقاب کر رہا ہے چنانچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس گفتگو کا رنگ مزید گہرا ہو جاتا ہے ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس انقلاب کو محض شیعہ انقلاب نہیں سمجھتے تھے حتی اسے آپ محض اسلامی بھی نہیں مانتے تھے بلکہ آپ اپنے انقلاب کو وسعت بخشتے ہوئے اسے مستکبروں کے خلاف وجود میں آنے والے انقلاب سے عبارت گردانتے تھے اور فرماتے تھے ’’ ہمارا انقلاب مستضفوں اور کمزوروں کا وہ انقلاب ہے جو مستکبروں کے مقابل وجود میں آیا ، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو امام خمینی نے انقلاب کے مفہوم کو وسیع کر دیا اسکی ڈاکٹرین کو وسعت بخشی ، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اس دور اندیشی کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل کے خلاف صرف مسلمان ہی احتجاج کر رہے ہوں یا اس وقت کی موجودہ صورت حال کے خلاف محض مسلمانوں نے ہی قیام کیا ہو بلکہ آپ اسے عمومی بنا دیتے ہیں ، اور یہ وہ فضا ہے جس میں اسرائیل سے مقابلہ کا رنگ اور گہرا ہو جاتا ہے یہ وہ کام ہے جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے انجام دیا ۔