ماہرین کافی عرصے سے چین کی تیزی سے پھیلتی فوجی جدت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اسے ایک ’ابھرتی ہوئی قوت ‘ قرار دیتے ہیں۔
لیکن شاید اب یہ تجزیہ بھی پرانا ہو گیا ہے۔ چین اب ‘ابھرتی ہوئی طاقت ‘ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک قوت بن چکا ہے جو کئی طریقوں سے امریکہ کو تمام عسکری حلقوں میں ٹکر دے رہی ہے۔
یہ نتیجہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کے شعبۂ امریکی تعلیمات نے اپنی ایک رپورٹ میں اخذ کیا ہے۔
اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ بحرہند اور بحرالکاہِل میں امریکی دفاعی حکمت عملی ‘ایک انوکھے بحران کا شکار ہے ‘ اور یہ کہ واشنگٹن کے لیے چین کے مقابلے میں اپنے دوست ممالک کا دفاع کرنا مشکل ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق ‘بحرہند اور بحرالکاہِل میں امریکہ کی فوجی برتری ختم ہو چکی ہے اورطاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے (امریکہ کی) صلاحیت تیزی سے غیریقینی ہو رہی ہے۔ ‘
رپورٹ میں بیجنگ کے غیرمعمولی میزائلوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح امریکہ اور اس کے دوست ممالک کے اہم فوجی اڈوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چین امریکہ کے فوجی اڈوں کو ‘جنگ کی صورت میں ابتدائی گھنٹوں میں ہی سرجیکل سٹرائیک سے غیرفعال بنا سکتا ہے۔ ‘
چین امریکہ کی طرح ایک عالمی سپر پاور نہیں ہے اور یقیناً چین کے عسکری مقاصد اس حد تک جانا نہیں ہوں گے (جو شاید تبدیل ہو جائے کیونکہ چین آہستہ آہستہ بیرون ملک اپنی بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کا ایک نیٹ ورک بنا رہا ہے۔)
فی الحال عالمی رسائی کے لیے چین اپنی معیشت پر کہیں زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس کے پاس بیرونِ ملک مہم جوئی کا وہ تجربہ نہیں جس نے 20ویں صدی کے دوران امریکہ کو عالمی برتری دلائی۔
نہ ہی چین کے پاس امریکہ جیسی سافٹ پاور ہے۔ جیسے دنیا بھر میں امریکہ کی نیلی جینز، ہالی وڈ کی فلمیں اور برگر مشہور ہیں۔ ان چیزوں سے باہر کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ بھی امریکی اقدار اپنائیں۔
یقیاً اب بھی کئی طریقوں سے واشنگٹن کے پاس بیجنگ سے زیادہ فوجی طاقت ہے۔ واشنگٹن (اور درحقیقت ماسکو) کے پاس بیجنگ سے کئی زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکہ کو کچھ چیزوں میں برتری حاصل ہے، جیسے انٹیلینجس معلومات، دفاعی بیلسٹک میزائل اور سب سے جدید جنگی جہاز۔ امریکہ ایشیا اور یورپ کے نیٹو ممالک میں اپنے اتحادیوں پر بھروسہ کر سکتا ہے، جن کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔
چین کے پاس اتحادیوں کا ایسا نظام نہیں لیکن وہ تیزی سے ٹیکنالوجی میں واشنگٹن کی برتری ختم کر رہا ہے اور تمام حالات میں چین کے لیے ایشیا سب سے اہم ہے جسے وہ وسیع زبان میں اپنے علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگر ایشیا کے دو اہم عوامل، توجہ اور قربت، کو دیکھا جائے تو چین یہاں اپنے حریف امریکہ کے مقابلے ابھی سے سپرپاور کا درجہ رکھتا ہے۔
چین نے امریکہ کی جنگی صلاحیتوں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنے لیے ایک مؤثر حکمت عملی بنائی ہے تاکہ امریکی فوجی قوت کے روایتی ذرائع کا مقابلہ کر سکے۔ اس میں طاقتور امریکی بحری بیڑے بھی شامل ہیں جو واشنگٹن کی عسکری قوت کا مرکزی حصہ ہیں۔
فوجی زبان میں اسے ‘اینٹی ایکسس اینڈ ایریا ڈینائل ‘کی حکمتِ عملی کہتے ہیں جسے استعمال کرتے ہوئے چین نے اپنی توجہ ہتھیاروں کے ایسے نظام اور سینسرز پر مرکوز کر لی ہے جن سے اسے امید ہے امریکہ کی افواج اس کے ساحلوں سے جتنا ہو سکے دور رہیں گی۔
آغاز میں یہ فطری طور پر ایک دفاعی انداز تھا۔ لیکن اب ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین کی صلاحیتوں نے اسے اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ پہل بھی کر سکتا ہے اور اسے خود پر اعتماد ہے کہ وہ ممکنہ امریکی ردعمل سے نمٹ سکتا ہے یا اسے روک سکتا ہے۔
آسٹریلیا کی تحقیق کے مطابق ‘مداخلت کی روک تھام کے بنے چینی نظام نے بحرہند اور بحرالکاہِل میں امریکی صلاحیت کو کمزور بنا دیا ہے۔ اس سے یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ اس سے پہلے کہ امریکہ ردعمل دکھائے، چین محدود قوت کا استعمال کرتے ہوئے وقت سے پہلے فتح حاصل کر سکتا ہے۔ جس سے وہ امریکہ کی سکیورٹی ضمانتوں کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ‘
لیکن چین یہ بھی چاہتا ہوگا کہ ‘سیکنڈ آئی لینڈ چین ‘ تک امریکی رسائی کو ایسے ہتھیاروں کے ذریعے محدود کیا جائے جن کی رسائی گوام میں امریکی اڈوں تک ہو سکتی ہو۔ اس مکمل حکمت عملی کو زمین پر موجود چینی جنگی طیاروں اور میزائل سے مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن ایسا نہیں کہ پینٹاگون چین کے چیلنج سے ناواقف ہے۔ دہائیوں کی شورش مخالف جنگوں کے بعد امریکی فوج میں طاقت کے بڑے مقابلے کے لیے تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران یہ حکمت عملی سوویت یونین کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج بڑے پیمانے پر اس کا ہدف چین ہے۔
البتہ سڈنی یونیورسٹی کی رپورٹ سوال اٹھاتی ہے کہ آیا واشنگٹن کا دھیان اس عمل پر پوری طرح مرکوز ہے یا نہیں۔ اس تحقیق کے مطابق ‘(امریکہ کی) خارجہ پالیسی کی اسٹیبلشمنٹ میں سپرپاور ہونے کی فرسودہ ذہنیت سے ممکنہ طور پر عالمی معاہدوں سے متعلق واشنگٹن کی صلاحیت محدود ہوجائے گی یا وہ بحرہند اور بحرالکاہِل میں کامیاب ہونے کے لیے سٹریٹجک معاہدے نہیں کر پائے گا۔ ‘
نئے ہتھیاروں اور تحقیق پر پیسے لگ رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑا کام ہے۔
امریکہ کی قوت تنزلی کا شکار ہے جو ‘طاقت کے بڑے مقابلے ‘ کے لیے پوری طرح تیار یا اچھی حالت میں نہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ جدت کی پرانی ترجیحات ‘ممکنہ طور پر اس کے بجٹ کو نقصان پہچائیں گی۔ ‘
یہ دستاویز ایک پروقار ادارے نے لکھا ہے جس کا تعلق اس ملک سے ہے جو خطے میں امریکہ کا سب کے قریبی اتحادی ہے۔
چین واضح طور پر بااختیار ہے۔ آپ یہ اس دفاعی دستاویز کے لہجے سے دیکھ سکتے ہیں۔
حالیہ تجارتی جنگ میں چینی صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور انھوں نے ہر میدان میں پراعتماد پوزیشن لی ہے، چاہے بات ہانگ کانگ میں جاری جمہوریت پسند مظاہروں کی ہو یا تائیوان پر چین کے پرانے دعوے کی۔
چین کے لیے اپنی معاشی طاقت کے ساتھ فوجی قوت ہونا ناگزیر تھا لیکن کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
امریکہ میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ تجارت پر چین کے خلاف کھڑے ہونا ضروری تھا لیکن کچھ ماہرین کے مطابق جو راستہ امریکہ نے اختیار کیا ہے اس سے شاید وہ تجارتی جنگ ہار جائے گا۔
مجموعی طور پر ٹرمپ انتظامیہ میں خارجہ پالسی کی واضح حکمت عملی کا فقدان ہے اور یہ صدر کے ٹوئٹر پر بیانات اور عجیب خلفشار کا شکار ہوتی ہے، جیسے صدر ٹرمپ کا گرین لینڈ خریدنے کی نئی خواہش۔
اس کے برعکس چین جانتا ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے اور اس نے اپنی حکمت عملی اس کے مطابق بنائی ہوئی ہے۔ یقیناً تمام ارادوں اور مقاصد کے پیش نظر وہ شاید اپنی منزل پر پہنچ بھی گیا ہے۔