نیشنل انٹرسٹ نے واقعۂ کربلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوری ایران امام حسین(ع) کے علمدار ہیں اور اپنے آپ کو مظلوموں کا حامی سمجھتا ہے اور پوری دنیا میں مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ متحد ہوچکا ہے۔
امریکی جریدے نیشنل انٹرسٹ نے ایک مضمون میں لکھا: “حسین(ع) کی صدا کو عنقریب ہر گوشے میں سنا جائے گا، ہمیں جنگ کی دھمکی مت دو، ہم زندہ ہیں، ہم نے اپنی شمشیریں سونت لی ہیں، اور تمہیں جواب دینے کے لئے تیار ہیں لفظ “ہتھیار ڈالنا” (Surrender) ہماری قاموس سے مٹ گیا ہے”۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ستمبر 2018ع میں ایک شیعہ ذاکر نے انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ ادا کئے تھے۔
نیشنل انٹرسٹ کے مضمون کے اہم نکتے:
دنیا بھر کے شیعہ محرم الحرام میں عام طور پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے عظیم ہیرو امام حسین علیہ السلام کے بارے میں مداحوں اور ذاکروں کے احترام بھرے الفاظ کو بڑی عقیدت سے سنتے ہیں۔ عاشورا محرم الحرام کا دسواں دن ہے؛ اور اس دن کو دنیا بھر کے شیعہ امام حسین(ع) اور کربلا کے عظیم کارنامے کی یاد تازہ کرتے ہیں؛ ایسا واقعہ اور کارنامہ جو ان کے لئے ان کے دین کی تشریح بھی کرتا ہے اور دنیا کے مسائل کے سلسلے میں ان کے نظریے کی یاددہانی بھی کرواتا ہے۔ جیسا کہ مداحوں اور ذاکروں کی مدح سرائی کے آغاز میں سماں بندی ہوتی ہے، امام حسین(ع) کی میراث طاقت کے ایک ذریعے کے طور پر میدان میں آکر اپنا کردار ادا کرتی ہے، وہ بھی ایسے حال میں کہ ایرانی شیعوں کو جنگ کی دھمکیوں سمیت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔
اگر امریکی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ایران کے سلسلے میں ایک واضح پالیسی متعین کریں تو انہیں جاننا چاہئے کہ ایرانی فکر ـ بالخصوص ان کی تاریخی اور قومی نفسیات کے لحاظ سے ـ جو ان کی قومی سیاست کا تعین کرتی ہے ـ ایرانی قوم سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔ امام حسین(ع) کے ورثے کی تاریخ اور اس تاریخ کی اساس پر معرض وجود میں آنے والے ایرانیوں کے جذبات و احساسات کی کیفیت، شدت بحرانی حالات سے گذرنے والے ایرانیوں کی حقیقت جاننے کی اہم کنجی ہے۔
یزیدی لشکر نے امام حسین(ع) کے قافلے کو کربلا میں روک لیا اور 10 روز تک گھیرے رکھا۔ انہیں یا تو سر تسلیم خم کرنا چاہئے تھا یا پھر انہیں اور ان کے 72 ساتھیوں کو قتل کیا جاتا۔ حسین(ع) نے سر تسلیم خم کرنے سے اجتناب کرکے شہادت کا راستہ چن لیا اور ایک شہید کی طرح قتل ہوئے ۔۔۔ یہ حساس لمحہ شیعیان اہل بیت(ع) کے لئے دو مفاہیم کا حامل تھا: پہلا مفہوم یہ کہ امام حسین(ع) جابروں اور ظالموں کے خلاف مزاحمت اور شہادت کے نمونۂ کامل ہیں؛ دوسرا یہ کہ: اس جنگ میں کوفیوں نے امام حسین(ع) کا ساتھ دینے سے اجتناب کیا جو ان کے لئے کلنک کا ٹیکہ تھا؛ کیونکہ کوفی وہ لوگ تھے جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ کبھی بھی اس طرح کی دعا کو نہیں ٹھکرائیں گے۔۔۔ اور [معاصر تاریخ میں] سنہ 1979ع میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ۔۔۔ اسلامی جمہوریہ ایران ـ جو حسین(ع) کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے ـ اپنے آپ کو بدستور مظلوموں کا حامی و ناصر سمجھتا ہے اور پوری دنیا میں مزاحمت کی تحریکوں کے ساتھ متحد ہوچکا ہے۔
ٹرمپ ماڈرن یزید
ٹرمپ کی حکومت اور واشنگٹن میں ایران کے دشمن یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگ تیزرفتار اور آسان ہے۔ امریکہ کا قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے 2019ع سے قبل [دہشت گرد تنظیم] مجاہدین [خلق] ـ جسے کسی وقت امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا ـ کے حامیوں کے اجتماع میں دعوی کیا کہ “عنقریب اسی طرح کا اجتماع تہران میں منعقد ہوگا” جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایرانی حکومت کے زوال کے دن بہت قریب ہیں۔
ارکنساس سے انتہاپسند ریپلکن سینیٹر ٹام کاٹن (Thomas Bryant Cotton) ـ جو ایران دشمنی کے حوالے سے مشہور ہے ـ نے فیصلہ کن انداز سے کہا تھا کہ “امریکہ دو حملے کرکے ایران پر غلبہ پائے گا؛ پہلا حملہ اور آخری حملہ”۔ ٹرمپ نے خود بھی “ایران کے باقاعدہ زوال” کی بات کی تھی اور کہا تھا: “ایران کے خلاف جنگ مختصر ہوگی”۔
اگرچہ ان بیان بازیوں میں بیان دینے والے اپنے بیانات سے بڑے مطمئن ہیں مگر اس امر کی تائید کے لئے کسی قسم کے شواہد نہیں پائے جاتے۔ ایران کی آخری ہمہ جہت جنگ 1980ع میں عراق کے حملے کے بعد سے شروع ہوئی تھی۔ صدام بھی ٹرمپ انتظامیہ کی طرح، ان دنوں سمجھ رہا تھا کہ وہ ایران پر غلبہ پانے کے لئے انقلاب کے بعد کے ایران کی کمزوریوں اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ اگرچہ عراق نے ابتداء میں کچھ کامیابیاں حاصل کیں اور خرمشہر پر قبضہ کیا، لیکن اغیار کی یلغار نے عوام کو اقدام اٹھانے کی ترغیب دلائی اور عوام نے اپنی توجہ اپنی سرزمین کے دفاع پر مرکوز کرلی، اور اسلامی جمہوریہ کو استحکام ملا۔
اگرچہ عراق زیادہ تیار اور زیادہ منظم تھا اور اسے دنیا کی طاقتور ترین ملکوں کی حمایت حاصل تھی مگر ایران ایک زبردست اور بہت طاقتور نظریئے اور عقیدے سے بہرہ ور تھا۔ بلا شک اسلامی جمہوریہ نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عوام کے دینی رجحانات سے فائدہ اٹھایا۔ کوفی عوام کے برعکس ـ جنہوں نے حسین(ع) تنہا چھوڑا ـ ایرانیوں نے سرتسلیم خم نہیں کیا اور جان نچھاور کرنے لئے تیار ہوئے اور امام حسین(ع) کے پرچم تلے لڑے۔
لاکھوں ایرانی مرد اور جوان، جو اپنے عقائد اور حب الوطنی کی طاقت سے لیس تھے، آٹھ سالہ جنگ میں شہید ہوئے۔ ایرانیوں نے صرف قربانیوں اور ایثار کی برکت سے اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کیا اور بالآخر خرمشہر کو آزاد کرایا اور جنگ کو عراقی سرزمین میں منتقل کیا ۔۔۔ آج، ایران کی مسلح افواج کہیں زیادہ طاقتور، ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس، بہت زیادہ منظم اور بہت زیادہ وسیع ہیں اور علاقے میں پہلے سے کہیں زیادہ قوت رکھتی ہیں۔۔۔ ٹرمپ ـ ایران کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر، عام لوگوں کو نقصان پہنچانے والی ظالمانہ پابندیاں لگا کر اور عظمت کے جذبے سے سرشار ایرانی احساسات کی توہین کرکے ـ ماڈرن یزید ـ یعنی ناانصافی، ظلم اور جبر کی تصویر ـ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔۔۔ اگرچہ ڈرونوں کے حملے اور بحری جہازوں کو روک لینا، خطرناک اقدام سمجھا جاتا ہے جو تنازعے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس طرح کے اقدامات کو مکمل طور پر دفاع کے دائرے میں دیکھا جاتا ہے، کیونکہ ایران اپنی سرزمین اور اپنے پانیوں کے دفاع میں مصروف عمل ہے۔
مسٹر ٹرمپ! ہوشیار رہنا کہیں تمہیں بھی صدام کے انجام کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مسٹر ٹرمپ! ہتھیار ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کربلا کا کارنامہ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا ورثہ ہے جس کا ہیرو استبدادیت کی مخالفت کی بنا پر بہت زیادہ قابل احترام ہے: “امام حسین(ع)”۔ امام حسین(ع) کی شہادت کے لمحے نے انہیں زندہ جاوید بنایا۔ ایران کے ساتھ جنگ کے اخراجات کے سلسلے میں کوئی بھی تجزیہ پیش کرنے سے قبل، ضروری ہے کہ اس سماں بندی کی طاقت کو مد نظر رکھیں۔
مسٹر ٹرمپ! تدبیر کو ہاتھ سے مت نکلنے دو، ایران پر “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی ترک کرو اور صدام کے انجام کو اچھی طرح سے یاد رکھنا جس نے تقریبا 40 سال قبل ایران پر حملہ کیا؛ ہوشیار رہنا کہ کہیں تمہارا انجام بھی صدام کے انجام کا سا نہ ہوجائے!