نئی دہلی۔ جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے اور اس کے بعد کے حالات پر ہو رہی سماعت کے دوران ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ یہ معاملہ سنگین ہے۔
اگر ضرورت پڑی تو میں خود حالات کا جائزہ لینے سری نگر جاؤں گا۔ دراصل یہ معاملہ جموں وکشمیر کی جیلوں میں بند 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی گرفتاری سے منسلک ہے۔ حقوق اطفال کارکن اناکشی گانگولی نے کورٹ میں یہ معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے متعلقہ ان کیسوں کی جانکاری مانگی جنہیں ہائی کورٹ کمیٹی دیکھ رہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لئے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں اپیل کریں۔ اس پر اناکشی کی طرف سے سینئر وکیل حصیفہ احمدی نے کہا ’’ ایسا کرنا بیحد مشکل ہے، ہائی کورٹ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔
عرضی گزار کے وکیل کے اس تبصرہ پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بیحد سنگین معاملہ ہے اگر لوگ ہائی کورٹ میں اپنی اپیل نہیں کر پا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس پر جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رپورٹ بھی مانگی۔ اس میں انہوں نے پوچھا کہ ہائی کورٹ اپیل کنندگان کی پہنچ میں ہے یا نہیں؟ سی جے آئی نے آگے کہا ’ یہ بیحد سنگین معاملہ ہے۔ میں خود نجی طور پر فون پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بات کروں گا۔ ضرورت پڑی تو ریاست کا دورہ بھی کروں گا‘‘۔
حالانکہ، سی جے آئی نے عرضی گزار کو انتباہ بھی دیا اور کہا کہ اگر آپ کا دعویٰ غلط نکلا تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا ہو گا۔