واشنگٹن ‘ 8 اکتوبر2013 – یکم اکتوبر کو امریکہ کے مالی سال کے آغاز میں، کانگریس کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے وفاقی حکومت کے زیادہ تر حصوں میں کام بند ہو گیا۔ جبکہ امریکی بحث کر رہے ہیں کہ اس تعطل کا قصوروار کون ہے۔
ان مباحثوں میں اوبامہ، ریڈ اور بوئنر جیسے ناموں پر مرتکز ہونے کا رحجان پایا جاتا ہے اور غالبا ان میں واشنگٹن، جیفرسن اور فرینکلین کو بھی شامل کیا جاناچاہیے۔ آخرالذکر تینوں کی مدد سے تیار کی جانے والی دستاویز نے امریکی جمہوریت کی بنیاد رکھی اور اس میں قصدا ایسی صورتحال پیدا کی گئی جو وفاقی حکومت کے بند ہونے کی اجازت دیتی ہے۔
1789 میں آئین سازوں نے صدارت کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے کانگریس کو اخراجات پر کنٹرول کا اختیار تفویض کیا۔ امریکی حکومت صرف “قانونی طور پر منظورشدہ تصرفات کے نتیجے میں” رقم خرچ کر سکتی ہے۔
انیسوی صدی کے دوران انتظامیہ نے اس پابندی سے بچنے کے لیے ادھار پر خریداری کرنے اور بعد میں ادائیگی کے لیے بل کانگریس کو بھیجنے کا طریقہ اپنایا۔ کانگریس نے اپنے اختیار میں اس کمی کا جواب 1884 میں انسداد خسارہ قانون (اینٹی ڈیفیشینسی ایکٹ) منظور کر کے دیا۔ اس قانون کے تحت، ماسوائے ایسے حالات کے جن میں جان یا مال کو شدید خطرات لاحق ہوں، کانگریس کی منظوری کے بغیر جان بوجھ کر پیسہ خرچ کرنے کو جرم قرار دیا گیا۔
نئے قانون کے باوجود کانگریس تقریبا ایک صدی تک مقررہ مدت میں حکومتی تصرفات کی منظوری کرنے میں ناکام ہوتی رہی۔ اکثر اس کمی کو متواتر قراردادیں کہلانے والے اقدامات کے تحت قلیل مدتی فنڈز کی فراہمی سے پورا کیا گیا۔
ان کوتاہیوں کی وجہ سے سفر، خریداریوں اور نئے ٹھیکوں میں تا خیر ہوئی۔ اس سے گاہے بگاہے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں خلل پڑا۔ تاہم، نہ مقننہ اور نہ ہی انتظامیہ نے حکومتی سرگرمیوں پر بندش کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا اور وفاقی اداروں نے اس یقین کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا کہ بالآخر کانگریس فنڈز فراہم کر دے گی۔
فیصلہ جس نے واشنگٹن کو تبدیل کر دیا
صدر جمی کارٹر نے 1980 میں اپنے وزیر قانون و انصاف بنجمن سیولیٹی کو انسداد خسارہ کے قانون کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیا۔ سیولیٹی کی تجاویز نے واشنگٹن کے کام کرنے کے انداز کو مستقل طور پر تبدیل کر دیا۔
انہوں نے اپنی باضابطہ رائے میں تحریر کیا، “کام کے تسلسل کے لیے قانونی اختیار کا وجود یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ اختیار موجود نہ ہو تو حکومت کو ملازمین کو گھر بھیج دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ حکم بجا نہ لانے والے اداروں کے سربراہوں پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اس رائے کے پانچ دنوں کے بعد، وفاقی تجارتی کمیشن کے اختیارات کے بارے میں کانگریس میں عدم اتفاق کی وجہ سے اس ادارے کے فنڈز ختم ہو گئے۔ بجٹ تنازعے کی وجہ سے بند ہونے والا، کمیشن پہلا وفاقی محکمہ بن گیا۔ کمیشن نے کام روک دیا اور 1,600 کارکنوں کو گھر بھیج دیا۔ کانگریس کی جانب سے فوری کاروائی کے بعد یہ دفتر اگلے دن دوبارہ کھل گیا۔ لیکن اس کوتاہی کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو 700,000 ڈالر کا نقصان ہوا۔
یکم اکتوبر 1980 کو جب نیا مالی سال شروع ہوا تو کارٹر نے حکومت کو عارضی بندش کی تیاری کا حکم دیا۔ کچھ اداروں کے لیے فنڈز کی فراہمی چند گھنٹوں کے لیے ضرور ختم ہوئی لیکن کسی کارکن کو گھر نہیں بھیجا گیا۔
اپنی مدت کے اختتام کے قریب سیولیٹی نے قانون کے اطلاق کی مزید وضاحت کر تے ہوئے کہا کہ حکومتی بندش سے عسکری سرگرمیاں، فضائی ٹریفک کنٹرول، جیل انتظامیہ اور انسانی جان یا مال کی سلامتی اورحفاظت کے دیگر کام مستثنی ہیں۔
صدر رونالڈ ریگن نے ، جو کسی حد تک ٹیکسوں میں کٹوتی اور حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے وعدوں کی بناءپر منتخب ہوئے تھے، ہوشیاری سے حکومتی بندش کی دھمکی کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا۔
سینیٹر چک شومر دیکھ رہے ہیں جبکہ سینٹ کے قائد ایوان ہیری ریڈ 2 اکتوبر کو کیپٹل ہل پر حکومت کی بندش کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔
انہوں نے 23 نومبر 1981 میں پہلی بار اپنا ویٹو اختیار استعمال کر کے ہنگامی اخراجات کے ایک بل کو روکا اور وفاقی کارکنوں کو اپنے دفاتر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ چند گھنٹوں کے بعد، کانگریس نے تین ہفتوں کے اخراجات کا بل منظور کیا جو صدر کی ضروریات کے مطابق تھا اور کارکن کام پر واپس آ گئے۔ اس سے ٹیکس دہندگان کو 80 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ریگن اور کانگریس کے درمیان تنازعات نے مزید دو مرتبہ کارکنوں کو آدھے دن کے لیے گھر بھیجا۔ ریگن کے جانشین، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے صرف ایک مرتبہ یہ حربہ استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں اکتوبر کے چھٹیوں والے اختتام ہفتہ کو جزوی بندش ہوئی۔ اس سے منفی طور پر متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر سیاح تھے جوقومی پارکوں اور سمتھ سونیئن عجائب گھروں میں داخل نہ ہو سکے۔
سیولیٹی کی رائے سے پہلے کے سالوں میں، ایک ہفتے یا زائد کا بجٹ میں تعطل معمول کی بات تھی۔ اس رائے کے بعد، 1995 تک کوئی بھی تعطل تین دنوں سے زیادہ نہیں رہا۔
کلنٹن بمقابلہ گینگرچ
بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل تصور مکمل بندش، بالآخر صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ کے دوران واقع ہوئی۔
کلنٹن اور ایوان نمائندگان کے سپیکر نیوٹ گینگرچ اس وقت کے کچھ انتہائی اہم معاملات پر متفق نہیں تھے، جن میں بوڑھے افراد کے لیے طبی نگہداشت کا مستقبل، غریبوں کے لیے امداد، ٹیکس میں کٹوتیاں اور وفاقی بجٹ خسارہ شامل تھے۔ ان کے درمیان تنازعات کے نتیجے میں دو بندشیں واقع ہوئی ہیں، پہلی 1995 میں 6 دنوں کے لیے دوسری 1996 میں 21 دنوں کے لیے۔ ان بندشوں کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا اور وفاقی ملازمین، حکومتی ٹھیکیداروں اور حکومت کو خدمات فراہم کرنے والے کاروباری اداروں کی آمدنی کے متاثر ہونے سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچا۔
رائے عامہ کا رجحان صدر کے حق میں تھا اور بالآخر کانگریس نے اپنے منظور کردہ تصرفات کے بلوں کی منظوری میں کلنٹن کی زیادہ تر شرائط مان لیں۔ امریکی رائے دہندگان نے، جو فیصلہ کن طور پر 1994 کے وسطی مدت کے انتخابات میں ریپبلیکن کے حامی تھے، 1996 میں کلنٹن کو دوبارہ منتخب کر لیا جو ڈیموکریٹ تھے۔
2013 کی بندش
یکم اکتوبر 2013 کو، مالی سال 2014 کے لیے فنڈز کی کمی کی وجہ سے امریکہ کی وفاقی حکومت کے کچھ حصوں کو بند کرنا ناگزیر ہو گیا۔
ایوان نمائندگان میں ریپبلیکن ارکان، صحت کی سستی سہولتوں کے قانون (ایفورڈ ایبل کیئر ایکٹ) کے لیے فنڈز میں کٹوتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس قانون کوصدر اوبامہ اپنی انتظامیہ کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ سینٹ نے، جہاں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہے، فنڈز میں کٹوتی کے ایوان نمائندگان کے بلوں کو مسترد کر دیا ہے۔
بندش کے دوران، ضروری خدمات جیسا کہ سوشل سیکیوریٹی کے واجبات اور قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کی سرگرمیوں کے لیے ادائیگیاں جاری رکھی جا رہی ہیں۔ صارفین کی فیس کے عوض مہیا کی جانے والی خدمات بھی جاری ہیں۔ گزشتہ مالی سال 2013 کے تصرفات سے بچ جانے والے فنڈزسے بھی کچھ پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔
حکومتی انتظامیہ یہ تعین کرتی ہے کہ کن ملازمین کو گھر بھیجا جا سکتا ہے اور کن ملازمین کا کم از کم وقتی طور پر بغیر تنخواہ کے کام جاری رکھنا ضروری ہے۔ سابقہ بندشوں کے دوران وفاقی ملازمین کو مو¿ثر بہ ماضی ادائیگی کی گئی۔
دو اکتوبر کو پارکوں اور یادگاروں کو جانے والے سیاحوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ وفاقی ملازمین، جنہیں صدر اوبامہ نے اس تعطل میں ” تختہ مشق” قرار دیا، بے چین ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ آیا ان کو کام پر دوبارہ بلایا جائے گا یا کسی لمحے بھی ان کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ قطع نظر اس کے کہ صورتحال سے کس طرح نمٹا جاتا ہے ٹیکس دہندگان کو لاکھوں کے نقصان کا احتمال ہے۔
آخر کار وفاقی حکومت اس وقت دوبارہ فعال ہو گی جب صدر اور کانگریس کے دونوں ایوان کسی ایسی پیش رفت پر جو سب کے لئے قابل قبول یا کم از کم قابل برداشت ہو، متفق ہوتے ہیں۔ اور بعینہ یہ ہی چیز تھی جو قوم کے بانی آباءواجداد چاہتے تھے۔
٭٭٭