عراق میں حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران مشرقی بغداد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں مزید 8 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے جبکہ حکام کے ہلاکتوں کی 104 سے تجاوز کر گئی ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ تازہ جھڑپیں مشرقی بغداد میں ہوئی جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جھڑپین بغداد کے ضلع صدر سٹی میں پیش آئیں جبکہ کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاج کے دوران ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ صدر سٹی کے دو مختلف مقامات میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آرمی کا تعاون بھی حاصل ہے جہاں ہوئی فائرنگ اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان سعدمان کا کہنا تھ اکہ ایک ہفتے کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 104 ہوگئی ہے اس کے علاوہ 6 ہزار 107 شہری اور 1200 سے زائد سیکیورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ عراق میں حکومت کی ناقص پالیسیوں، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف یکم اکتوبر کو شدید احتجاج شروع ہوا تھا جو اب مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق عراق میں بے روزگار نوجوانوں کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہے۔
وزیر اعظم عادل المہدی نے ایک سال قبل ہی حکومت سنبھالی تھی اور مختصر عرصے میں ہی انہیں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہے اور انہیں سنبھالنا مشکل تر ہو چکا ہے، حالانکہ انہیں اصلاحات کی یقین دہانی پر متفقہ طور پر وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار سرمد البیاتی کا کہنا تھا کہ ‘عادل المہدی کو فیصلہ کن تبدیلیوں کے ساتھ آگے آنا چاہیے جس میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے نمایاں سیاست دانوں کو ہٹانا بھی شامل ہے’۔
سنگاپور یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر فرنار حداد کا کہنا تھا کہ عراق میں سیاسی اور مذہبی اختلافات شدید انداز میں پائے جاتے تھے جہاں احتجاج پارٹی یا فرقے کی بنیاد پر ہوتا تھا لیکن گزشتہ پانچ دن بڑے غیر معمولی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پہلا موقع ہے جب عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں’۔