لکھنئو۔ آج ہندوستان میں تقریبا 70 برسوں سے چل رہے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی آراضی تنازعہ کی قانونی لڑائی اختتام پذیر ہونے والی ہے۔
اس دوران مسلم فریق کی طرف سے سب سے بڑے’ جنگی سپاہی‘ کے طور پر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا نام ابھرا ہے۔ یہ کہانی ہے اس ادارہ کے وجود میں آنے کی اور متنازعہ ڈھانچہ گرائے جانے سے پہلے اور بعد میں مسلمانوں کی سب سے بیباک آواز بننے کی۔
حالانکہ اس آراضی تنازعہ کی جڑیں 1857 تک جاتی ہیں جب بابری مسجد کے مولوی محمد اصغر نے مجسٹریٹ کے یہاں شکایت کی عرضی دائر کی تھی کہ ہنومان گڑھی کے مہنت نے جبرا مسجد کے آنگن پر قبضہ جما لیا ہے۔
1859 میں برطانوی حکومت نے صحن میں ایک دیوار بنائی جس سے ہندو اور مسلمانوں کے پوجا و عبادت کرنے کا مقام الگ ہو گیا۔ اس کے بعد تب تک موجودہ صورت حال بنی رہی جب تک کہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی رات کو رام اور سیتا کی مورتیاں اندر نہیں رکھوا دی گئیں۔
اس واقعہ کے چھ دن بعد 29 دسمبر کو بابری مسجد کو متنازعہ املاک قرار دے دیا گیا۔ حکم نامہ جاری کیا گیا اور آس پاس کے مسلمانوں کو مسجد کے اندر داخلہ پر پابندی لگا دی گئی۔ مرکزی دروازہ بند کر دیا گیا اور ہندوؤں کو بغل کے دروازے سے درشن کی اجازت دے دی گئی۔
متنازعہ املاک قرار دئیے جانے کے بعد 1949 سے لے کر 1975 تک یہ معاملہ فیض آباد کے سیشن کورٹ میں رہا۔ 1975 میں رسیورشپ کے فیصلہ کے خلاف کیس دائر کیا گیا۔ 1977 میں معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ سے لکھنئو بینچ میں ٹرانسفر ہو گیا۔
ایسا اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ اودھ بار ایسوسی ایشن نے ایک عرضی داخل کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ معاملہ فیض آباد، ایودھیا کا ہے جو لکھنئو بینچ کے دائرہ انصاف میں آتا ہے۔
سال 1977 کے بعد اگلے کچھ سالوں تک معاملہ کو زیر التوا رکھا گیا اور اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یکے بعد دیگرے کئی ججوں نے معاملہ سے خود کو الگ کر لیا۔
مسلم اور ہندو دونوں ہی فریقوں کی طرف سے بہت زیادہ دلچسپی بھی نہیں دکھائی جا رہی تھی۔ لیکن حالات تب بدلنے شروع ہوئے جب ہندووادی تنظیموں نے رام جنم بھومی کو لے کر تحریک شروع کر دی۔ وہیں، مسلم فریق نے بھی اپنی کمر کس لی۔
کیا کہتے ہیں ظفریاب جیلانی
مسلم فریق کی طرف سے معروف وکیل ظفریاب جیلانی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ 1982 میں وشو ہندو پریشد کی سمستی پور رتھ یاترا کے بعد یہ کوئی 1983 کا وقت رہا ہو گا جب معروف اسلامی اسکالر اور دانشور علی میاں نے مجھے اس معاملہ پر بات چیت کے لئے فون کیا تھا۔ علی میاں لکھنئو کے مشہور دارالعلوم ندوتہ العلما کے صدر بھی تھے‘‘۔
جیلانی یاد کرتے ہیں کہ معاملہ میں تب بیحد کم حقائق دستیاب تھے۔ جیلانی کا دعویٰ ہے کہ وہ اتفاق سے اس معاملہ سے جڑ گئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ تب اس معاملہ کی کمیوں اور خوبیوں کے بارے میں بیحد کم جانکاری موجود تھی۔ جیلانی بتاتے ہیں’’ تب علی میاں نے مجھے 2000 روپئے دئیے اور ایودھیا سے معاملہ کی فائل لینے کو کہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ معاملہ میں مسجد کی تاریخی صورت حال پر نوٹس تیار کریں‘‘۔
اس وقت یہ بھی بات چیت کی گئی کہ ’ تحریک‘ کی شروعات کی جائے۔ تحریک مسجد کی حمایت میں ایک کمیونٹی تحریک تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر رہے علی میاں کی طرف سے کی گئی اس شروعات نے بعد کے سالوں میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔
سال 1986 میں آیا بڑا فیصلہ
دو جنوری 1986 کو ایک بڑا وقت تب آیا جب فیض آباد کے ضلع جج نے بابری مسجد کا صدر دروازہ کھولنے کا حکم دے دیا۔ اسی دن مسلم پرسنل لا بورڈ کی فوری میٹنگ بلائی گئی۔ میٹنگ میں بابری مسجد کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کی پالیسی پر منصوبہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
چار جنوری کو بورڈ کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ مشہور وکیل عبدالمنان کے گھر پر لکھنئو میں ہوئی۔ وہاں موجود لوگوں میں اعظم خان ( رام پور سے موجودہ رکن پارلیمنٹ) بھی تھے۔
اس وقت کے کانگریس رکن اسمبلی سیدالزماں بھی وہاں موجود تھے۔ دو دن بعد ایک بڑی میٹنگ بلائی گئی۔ یہ میٹنگ امین آباد کے نزدیک ایک گھر میں ہوئی اور وہاں تقریبا 200 لوگ موجود تھے۔ اسی میٹنگ میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔
اعظم خان اور ظفریاب جیلانی کو کنوینر منتخب کیا گیا تو وہیں مولانا مظفر حسین کو صدر بنایا گیا۔ 1987 میں معاملہ سے جڑے سول کیس فیض آباد سے واپس لے کر الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنئو بینچ کو ٹرانسفر کر دئیے گئے اور عدالتی لڑائی آگے بڑھی تو مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر نگرانی بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے ہندو تنظیموں کے خلاف کمیونٹی تحریک کے طور پر تیکھی مخالفت درج کرائی۔
اور 1992 میں منہدم کر دی گئی مسجد
اور حالات ایک بار پھر اس وقت بدل گئے جب 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد منہدم کر دی گئی۔ ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی کہتے ہیں ’’ بابری مسجد گرائے جانے اور سپریم کورٹ کے 1994 کے فیصلے کے بعد ہم نے بنیادی طور پر عدالتی لڑائی پر ہی توجہ مرکوز کرنا شروع کیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ پر کیس اپنے ہاتھ میں لینے کا دباؤ تھا۔ ایکشن کمیٹی کو عدالتی لڑائی کی ذمہ داری سونپی گئی‘‘۔
تب سے اب تک تقریبا چوتھائی صدی گزر چکی ہے یہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی ہی ہے جس نے مختلف مسلم فریقوں کی عدالتی لڑائی لڑی ہے۔
اس میں سنی سینٹرل وقف بورڈ بھی شامل ہے۔ 2010 تک ہائی کورٹ میں اور اس کے بعد اب سپریم کورٹ میں۔ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنئو بینچ نے تینوں فریقوں میں زمین کی مساوی تقسیم کا فیصلہ دیا تھا۔