ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں ایک فیس بک پوسٹ پر ہونے والے احتجاج میں شامل ہزاروں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے کم از 4 افراد ہلاک جبکہ 50 زخمی ہوگئے۔
حکام کے مطابق مذکورہ پوسٹ ایک ہندو نے کی تھی جسے توہین مذہب پر مبنی قرار دیا جارہا ہے۔
90 فیصد حصے یا 16 کروڑ 80 لاکھ مسلمانوں کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں گستاخانہ سمجھی جانے والے فیس بک پوسٹس پر ہجوم کے حملے سیکیورٹی فورسز کے لیے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ملک کے سب سے بڑے جزیرے بھولا کے علاقے برہان الدین میں نماز کی اجتماع گاہ میں اندازاً 20 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ ہندو نوجوان کی پھانسی کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ مذکورہ جزیرہ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے جنوب میں 115 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔
تاہم رپورٹس کے مطابق نوجوان کو مذہبی کشیدگی کو بھڑکانے کے الزام میں ہفتے کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
دوسری جانب پولیس کا موقف تھا کہ مظاہرین میں سے کچھ افراد نے پولیس افسران پر پتھر برسائے جس کے بعد پولیس نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی۔
اس حوالے سے پولیس انسپکٹر صلاح الدین میاں نے بتایا کہ مذکورہ واقعے میں ’کم از کم 4 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوئے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں پولیس کی اضافی نفری اور سرحدی محافظین کو تعینات کردیا گیا ہے۔
ادھر بھولا صدر ہسپتال کے ڈاکٹر طیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہسپتال لے جائے گئے 43 میں سے کم از کم 7 افراد موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں لہٰذا اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے شدید زخمیوں کو بریسلز کے مقامی ہسپتال میں منتقل کردیا ہے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں‘۔
علاوہ ازیں بنگلہ دیش کے کچھ مشہور و معروف اخبارات کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً 100 افراد زخمی ہوئے تھے۔