نئی دہلی ۔راشٹریہ علماء کونسل کے ذریعہ آئین کی دفعہ ۳۴۱ میں لگی مذہبی پابندی کو ختم کرنے کے مطالبے کو لیکر دہلی میں جنتر منتر پر شروع کیا گیا غیر معینہ مدت کا دھرنا آج دوسرے روزبھی جاری رہا ۔جس میں راشٹریہ علماء کونسل کے سیکڑثں کارکنوں نے حصہ لیا اس موقعہ پر دھرنے کو خطاب کرتے ہوئے راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے کہا کہ صدیوںسے چلے آرہے طبقاتی نے اس ملک کے دلتوں اور کمزور طبقات کو جانوروں سے بدتر زندگی جینے پر کر دیاتھاجسکے خلاف دلتوں اور پسماندہ طبقات کے فلاح و بہبود کے لئے چلائی جارہی تحریکوں کے نتیجے میںانگریز حکومت کے زریعہ سائمن کمیشن لندن سے ہندوستان آیاتھاجسے ہندوستانی سماج کاگہرائی سے مطالعہ کرکے ایسی رپورٹ بنانی تھی جس سے یہاں کے دلتوں اور پسماندہ طبقے کو جانوروں سے بدتر زندگی جینے سے نجات مل سکے اورانہیں سماج میںاپناانسانی حق حاصل ہوسکے ۔لیکن ملک کی تاریخ میں انسانیت کی سب سے بڑی دشمن انڈین نیشنل کانگریس نے سائمن گو بیک کے نعرے کے ساتھ زبردست تحریک چلاکر اسکی مخالفت کی ۔کانگریس کی سخت مخالفت کے باوجود سائمن کمیشن نے دلتوں کو انکی آبادی کے تناسب میں انکاحصہ الگ کر دینے کی شفارش کی جو لندن میں ہونے والی دونوں گول میزکانفرنسوں میں کانگریس کی مرضی اور مخالفت کے باوجود منظور کر لی گئی جس کے خلاف گاندھی جی نے پونہ میں بھوک ہڑتال شروع کر دی ۔کانگریس نے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر پر دبائوڈالکر مجبور کیاکہ وہ گاندھی جی کی جان بچانے کیلئے پونہ پیکٹ پر دستخط کریں ۔پونہ پیکٹ کے مطابق ۱۹۳۶ء میں دلتوں (فہرست ذاتیوں)کی جو لسٹ منظور ہوئی اس میں سبھی مذہب کے ماننے وا لے دلت ذاتیوں کے لوگ شامل تھے اور پھر اسی لسٹ کے مطابق ۱۹۴۳ء میںانگریز حکومت نے دلتوں کو انکے آبادی کے تناسب میں ریزویشن اور دیگر سہولیات کا قانونی حق دے دیا ۔ اس وقت دلتوں(فہرست ذاتیوں )کی جو لسٹ جاری کی گئی تھی وہی آج بھی اثر انداز ہے ۔ اس لسٹ کے مطابق دھوبی،نٹ،بنجارہ،مداری،پیریا،حلال خور،مہتر،بھنگی،ڈوم،ڈفالی
،سیفی،بھانٹ،بھٹھیارہ،موچی،پاسی،کنجر،سانسی،گورکن،جوگی،منگتا(فقیر)،جلاہا،کھٹک،کنجڑا،گوجر،مراسی،دھنا،بہنا،کمہار،گدی،بھشتی،شلپ کار،چھپربند،جھوجھا،ترک،سکل گڑھ،سکری بند،وغیرہ ایسی ذاتیاں ہیں جنکے لوگ ہندو اور مسلمان دونوں مذہب میں پائے جاتے ہیں۔چونکہ یہ ذاتیاںپورے ملک کی ہیں اس وجہ سے ایسی اور بھی ذاتیاں ہو سکتی ہیں جو دیگر ریاستوں میں مسلمان ہوں ۔اس طرح سے ہندو ،مسلم ،سکھ اور دیگر مذہبی
اقلیتوں کے سبھی دلت ذاتیوں کے لوگوں کو ریزرویشن اور دیگر سہولیات آئین لاگو ہونے تک ملتا رہا جو دفعہ۳۴۱کے تحت آئین میں درج ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئین لاگو ہونے کے بعد ۱۰ اگست۱۹۵۰ء کو وزیرآعظم پنڈت جواہرلعل نہرو نے آئین کی دفعہ ۳۴۱ میں ایک ترمیمی آرڈینینس جاری کیا کہ فہرست ذاتیوں (دلتوں)میں صرف انھیں کو ریزویشن و دیگر سہولیات ملیں گے جو ہندو ہونگے ۔فہرست ذاتیوں(دلتوں)کے کسی ایسے فرد کو ریزویشن و دیگر سہولیتیں ملیں گی جو غیر ہندو ہو گا ۔اسطریقے سے مسلمانوں سمیت سبھی مذہبی اقلیتوں کی دلت ذاتیوں کو فہرست ذاتیوں (دلتوں)کی حیثیت سے ملے انکے آئینی حقوق سے انھیں محروم کر دیا گیا ۔عیسائی دلتوں کو انگریز حکومت نے ۱۹۳۶ء میں ہی اس سہولیت سے محروم کر رکھا تھا ۔سکھ دلتوںنے اپنے آئینی حقوق سے محروم ہونے کے بعد اسے پانے کیلئے تحریک چلائی تب ۱۹۵۶ء میں پنڈٹ جواپر لعل نہرو نے اپنے ۱۹۵۰ء کے آرڈینینس میں تبدیلی کرتے ہوئے فہرست ذاتیوں (دلتوں)کے لئے رجرویشن و دیگر سہولیتیں پانے کے لئے ہندو یا سکھ ہونا ضروری قرار دیا ۔ پنڈٹ جواپر لعل نہرو کو لگا کہ اگر مسلمان دلتوں کو ریزویشن و دیگر سہولیتیں دے دی جائیں تو وہ ہندو مذہب قبول کر سکتے ہیں اپنے اس ناپاک،گھنونے اور غیر وآئینی مقصد کے پائے تکمیل کے لئے انھوں نے اپنے ۱۰ اگست ۱۹۵۰ء کے آرڈینینس میں ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے اس میں جوڑا کہ جن دلتوں کے آباء واجداء جو کبھی ہندو مذہب سے نکل گئے تھے اگر وہ واپس ہندو مذہب قبول کر لیں تو انھیں ریزویشن کا فائدہ ملیگا ۔ اسکے بعد ۱۹۹۰ء میں اس آرڈینینس میںوزیرآعظم وی۰پی۰سنگھ کے ذریعہ ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے بودھ مذہب کے ماننے والے دلتوں کو بھی اسمیں شامل کیا گیا ۔
مولانا رشادی نے یہ بھی کہا کہ ایک جائزے کے مطابق پچھلے ۶۵سالوں سے مسلم دلتوں سے انکے فہرست ذات(دلت) ریزرویشن کے حقوق کو نہ چھینا گیا ہوتا تو لگ بھگ پانچ ہزار مسلمان وآئی اے ایس،پچیس ہزار پی سی ایس،اور ایک لاکھ سے زائد دیگر ملا زمتوں میں پہنچ کر،اور لگ بھگ سولوگ ایم۰پی۰،اور ایک ہزار لوگ ایم۰ ایل۰اے۰بنکرسماج میں اعلی مقام حاصل کر چکے ہوتے،اور اگر دلتوں کو ملنے والی دیگر دیگر سہولیتوں کو جوڑا جائے تو اسکا اندازہ اور حساب بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے لوگوں کو زمینوں کے پٹے ملے ہوتے،کتنے لوگوں کو رہائشی و دیگر اسکیموں کا فائدہ پہنچا ہوتا ۔اسی طرح سے عیسائی،جین اور دیگرمزہبی اقلیتوں کا بھی نقصان ہوا ہے۔
انھوں نے اس بات کو غورت طلب بتایا کہ آئین کے دفعہ ۳۴۰ کے تحت پسماندہ طبقے کو ریزویشن کی سہولیت ملی ہے اسمیں مذہبی پابندی عائد نہیں ہے،دفعہ۳۴۲ کے تحت درج فہرست ذاتیوں (قبائلیوں )کو یزرویشن کی سہولیت ملی ہے اسمیں بھی مذہبی پابندی عائد نہیں ہے جبکہ دفعہ ۳۴۱ کے تحت فہرست ذاتیوں(دلتوں)کو ریزویشن و دیگر سہولیات دئے گئے ہیں جسمیں ۱۹۵۰ء میں آردینینس کے ذریعہ مذہبی پابندی عائد کرکے مسلمانوںاور دیگر مذہبی اقلیتوں کے دلتوں کو انکے آئینی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ غیر منصفانہ اور غیر آئینی ہے۔جسے سچر کمیٹی اورجسٹس رنگ نا تھ مشرا کمیشنوں کی رپورٹوںمیں بھی تسلیم کرتے ہوئے دفعہ آئین کے دفعہ ۳۴۱سے مذہبی پابندی ہٹانے کی شفارش کی ہے۔
راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ جب بھی الکشن قریب آتا ہے تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا ووٹ پانے کے لئے آئین کے دفعہ ۳۴۱ سے مذہبی پابندی ختم کرنے کا وعدہ اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی شفارشات کو عمل میں لانے کی بات تو کرتی ہیںلیکن اقتدار میں آنے کے بعد انکی نیت بدل جاتی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہونے پائیگا ۔انھوں نے مرکزی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اگر اس نے راشٹریہ علماء کونسل کے دفعہ ۳۴۱ سے مذہبی پابندی ختم کرنے کے مطالبے کو نظر اندازکیا تو اسے ہم کسی بھی قیمت پر اقتدار میں دوبارہ نہیں آنے دیں گے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حکومت ہمارے مطالبے کو تسلیم نہیں کر لیتی ہے۔ دھرنے کو راشٹریہ علماء کبنسل کے میڈیا انچارج ڈاکٹر نظام الدین خان، مہا راشٹر کے صوبائی صدر سید نور الدین آفتاب،دیلی پردیش کے صدر ایس ایم نور اللہ،یوتھ ونگ کے صدر محمد شمیم وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔
(ڈاکٹر نظام الدین خان )
میڈیا انچارج