نئی دہلی۔ ایودھیا کے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ پر ہفتہ کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ رام للا کو متنازعہ زمین کا مالکانہ حق ملنے کے بعد وہاں مندر بننے کا راستہ بھی صاف ہو گیا ہے۔ ایودھیا معاملہ پر عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی اس بینچ نے ملک کے تمام متنازعہ مذہبی مقامات پر بھی اپنا رخ واضح کیا۔
عدالت کے فیصلے سے صاف ہو گیا کہ کاشی اور متھرا میں مذہبی مقامات کی موجودہ صورت حال آگے بھی بنی رہے گی۔ ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
بتا دیں کہ ایودھیا کی طرح کاشی کے وشوناتھ مندر۔ گیان واپی مسجد تنازعہ اور متھرا میں بھی مسجد تنازعہ سالوں سے چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے 1,045 صفحات کے فیصلے میں 11 جولائی 1991 کو نافذ ہوئے پلیسیز آف ورشپ( اسپیشل پروویژن) ایکٹ، 1991 کا ذکر کرتے ہوئے صاف کر دیا کہ کاشی اور متھرا کے سلسلہ میں موجودہ صورت حال برقرار رہے گی۔
سپریم کورٹ کی پانچ ججوں والی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شرما کی اس رائے کو بھی مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مذہبی مقامات کو لے کر سبھی طرح کے تنازعات عدالت میں لائے جا سکتے ہیں۔ جسٹس شرما الہ آباد ہائی کورٹ کی اس بینچ میں شامل تھے جس نے 2010 میں ایودھیا معاملہ پر فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ نافذ ہونے سے پہلے کے بھی مذہبی مقامات سے منسلک تنازعہ کی اس قانون کے تحت سماعت کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
جسٹس شرما کی اس بات کو نقل کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی بینچ نے اپنے فیصلے میں ملک کے سیکولر کردار کی بات کی۔
کورٹ نے ہفتہ کو اپنے فیصلے میں کہا کہ 1991 کا یہ قانون ملک میں آئین کے اقدار کو مضبوط کرتا ہے۔ بینچ نے کہا ’’ ملک نے اس ایکٹ کو نافذ کر کے آئینی عہدبستگی کو مضبوط کرنے اور سبھی مذاہب کو یکساں ماننے اور سیکولرزم کو بنائے رکھنے کی پہل کی ہے‘‘۔
ایودھیا معاملہ پر عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی اس بینچ نے ملک کے تمام متنازعہ مذہبی مقامات پر بھی اپنا رخ واضح کیا۔
کیوں بنا تھا یہ ایکٹ؟
دراصل، 1991 میں مرکز میں نرسمہاراؤ کی حکومت تھی۔ ان کی حکومت کو شاید ایک سال پہلے ہی ایودھیا میں بابری مسجد انہدام جیسا کچھ ہونے کا اندیشہ ہو گیا تھا۔ اس وقت تنازعہ صرف ایودھیا کو لے کر ہی نہیں تھا۔ کاشی اور متھرا جیسے کئی مذہبی مقامات بھی اس میں شامل تھے۔ کسی مذہبی مقام پر بابری مسجد انہدام جیسا کوئی واقعہ نہ ہو، اس کے لئے اس وقت (1991) میں ایک قانون پاس ہوا۔
کیا کہتا ہے یہ ایکٹ؟
یہ ایکٹ صاف کہتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزادی کے دن سے مذہبی مقامات کی جو صورت حال ہے وہ اسی طرح برقرار رہے گی۔ حالانکہ، اس پلیسیز آف ورشپ ایکٹ ( اسپیشل پروویژن) 1991 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر مذہبی تنازعہ عدالت میں ٹرائل کے لئے لایا جا سکتا ہے۔