چین نے تبت کے دلائی لامہ کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے واشنگٹن کی مبینہ سرگرمیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا، تبت میں ‘مداخلت’ کے لیے اقوام متحدہ کو استعمال کر رہا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے سفیر برائے مذہبی آزادی سیم براؤن بیک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکا چاہتا ہے کہ تبت کے روحانی رہنما کی جانشینی کے معاملے کو اقوام متحدہ دیکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘دلائی لامہ کے جانشین کا انتخاب تبت کے بدھ مذہب کے ماننے والوں سے متعلق ہے اور اس پر چینی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے’۔
چین نے اس بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘امریکا مذہبی آزادی کی آڑ میں چین کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے’۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شوانگ نے بیجنگ میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے انہیں ناکامی ہوگی اور عالمی برادری کی جانب سے بھی اس کی مخالفت ہوگی’۔
رپورٹ کے مطابق چین نے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ اگلے دلائی لامہ کا نام سامنے لاسکتے ہیں جو ممکنہ طور پر چینی حکومت کی حمایت کریں گے۔
چینی حکومت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس نے ہمالیائی خطے میں ترقیاتی کام کیے ہیں اور خطے میں جدید اصلاحات کی ہیں۔
دلائی لامہ کے حوالے سے چینی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ تبت کی علیحدگی کی مہم ان کے ساتھ ختم ہوجائے گی جو تبت کے چودھویں دلائی لامہ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 84 سالہ دلائی لامہ صحت کے حوالے سے شدید مسائل کا شکار ہیں اور انہیں رواں برس کے آغاز میں چیسٹ انسپکشن کی شکایت ہوئی تھی جو مزید بگڑی رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت نے 1995 میں اپنا پنچن لاما منتخب کیا تھا اور بدھ مذہب کے ماننے والوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایک چھ سالہ لڑکے کو گرفتار کیا تھا جس کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے دنیا کا کم عمر ترین قیدی قرار دیا تھا۔
نوبیل انعام یافتہ 84 سالہ دلائی لامہ نے اس حوالے سے کہا تھا کہ وہ خود اپنا جانشین منتخب کریں گے جو ممکنہ طور ایک لڑکی ہو یا خود کو آخری دلائی لامہ قرار دیں۔
دلائی لامہ نے رواں برس اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر ان کی جگہ کسی خاتون کو جانشین مقرر کیا جائے گا تو لازم ہے کہ وہ انتہائی پرکشش ہوں تاکہ ان کی پیروی کرنے والے افراد اسے دیکھتے رہیں۔