نئی دہلی : بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا جائزہ لینے والی جمعیۃعلماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کی تشکیل کردہ پانچ نفری پینل نے وکلاء اور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میںسپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ریویو پٹیشن داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔
صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی ،مولانا حبیب الرحمن قاسمی ، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمن قاسمی اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اعجاز مقبول پرمشتمل پینل نے ریویو پٹیشن کے تمام ممکنہ پہلووں پر غور کیا۔پینل نے کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن قانونی طور پر یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے اس لئے کہ ابھی نظر ثانی( ریویو )کا آپشن موجود ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو عدالت سے رجوع ہونا چاہئے؛ کیونکہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلہ میں عدالت نے مسلمانوںکے بیشتر دلائل کو قبول کیا ہے ۔ جہاں قانونی آپشن موجود ہے وہیں شرعاً بھی یہ ضروری ہے کہ آخری دم تک مسجد کی حصول یابی کے لیے جدوجہد کی جائے ۔
مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے مسلمانوں کے ماتھے پر لگا یہ داغ دھل گیا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کی تعمیر رام مندر توڑ کر کی تھی ، محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ نے واضح کردیا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی گئی ۔
سپریم کورٹ نے مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ1949میں غیر قانونی طریقے سے مسجد کے باہری صحن سے مورتی اندر رکھی گئی اور پھروہاں سے اندرونی گنبد میںمنتقل کی گئی جب کہ اس دن تک وہاں نماز کا سلسلہ جاری تھا۔ اور6 دسمبر 1992 کو شرپسندوں کے ذریعہ شہید کیا جانا بھی غیر قانونی عمل تھا ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ مسلمانوں کے ثبوت کم سے کم 1857 کے بعد سے 1949 تک بابری مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔
تقریبا یہ نوے سال ہوتے ہیں،تو اگر نوے سال تک ہم نے اگر کسی مسجد میں نماز پڑھی ہے تو اس مسجد کی زمین کو ہمیں نہ دیکر مندر کو دینے کا کیا مطلب ہے۔یہ چیز ہماری سمجھ سے پرے ہے۔مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ماہرین قانون نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کیاہے ،
سپریم کورٹ سے 2012 میں سبکدوش ہونے والے جسٹس گانگولی نے کہا کہ اگر بابری مسجد شہید نہیں ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ سے رجو ع ہوتے اور کہتے کہ رام کا جنم استھان مسجد کے اندر ہے تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرنے کا حکم دیتی ؟ عدالت ایسا نہیں کرتی تو پھر آج عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا ؟ ان سب جیسے سوالات عدالت کے سامنے دوبارہ پیش کرنے کیلئے نظر ثانی کی درخواست عدالت میں داخل کرنا ضروری ہے ۔
پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنے فیصلہ میں مورتی کو فریق نہیں قبول کیا ہے اس کے باوجود فیصلہ ہندوئوں کے حق میں دے دیا گیا جو ناقابل فہم ہے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ریویو پٹیشن کے ذریعہ شاذ و نادر ہی فیصلے تبدیل کیئے جاتے ہیں لیکن ہمیں جو قانونی طورپردستیاب آپشن اس کو استعمال کرنا چاہئے ،۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عدالت نے آئین ہند کے آرٹیکل 142 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے تب بھی یہ معقول فیصلہ نہیں ہے کیونکہ متذکرہ آرٹیکل کے ذریعہ ثبوت و شواہد کی روشنی میں مکمل انصاف کیئے جانے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ اس معاملہ میں مکمل انصاف ہوا ہی نہیں کیونکہ مسلمانوں کے بیشتر دلائل قبول کرنے کے باوجود عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو مسلمانو ں کے خلاف اور ہندوئوں کے حق میں ہے ۔مسلمان مسجد منتقل نہیں کرسکتا لہذا متبادل اراضی لینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔بابری مسجد کے حقوق کے لئے جمعیۃ علماء ہند برسوں سے کوشاں ہیں اور ملک کی سلامتی اور انصاف کے لئے آخری حد تک کوشش جاری رہے گی ۔
واضح رہے کہ30؍ ستمبر2010 الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد 23 اکتوبر 2010 کو جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے اور صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر سب سے پہلے الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی جس کا عرضداشت کا نمبر Civil Appeal Nos. 10866-10867 of 2010 ہے۔