لکھنؤ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اتوار کو لکھنؤ میں منعقد مجلس عاملہ کےہنگامی اجلاس میں اجودھیا معاملہ کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی عرضی داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی کے ساتھ بابری مسجد کے عوض سپریم کورٹ نے جو پانچ ایکڑ آراضی دینے کا فیصلہ کیا ہے بورڈ نے وہ زمین لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی جگہ نہ تو بدلی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے عوض میں کوئی دیگر چیز قبول کی جا سکتی ہے۔ یہ اطلاع بورڈ کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے جلسہ کے بعد نامہ نگاروں کو دی۔
بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی صدارت میں یہاں ڈالی گنج واقع ممتاز پی جی کالج میں منعقدہ جلسہ میں بورڈ کی مجلس عاملہ کے کل ۵۱؍اراکین میں سے ۳۵سے ۴۰ ؍اراکین سمیت کل ۴۵ممبران شامل ہوئے۔ بورڈ کے سکریٹری اور وکیل ظفر یاب جیلانی نے جلسہ میں کئے گئے فیصلوں کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ بورڈ نے طے کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی عرضی داخل کریںگے۔
علی طاہر رضوی
ساتھ ہی بورڈ نے پایا کہ مسجد کے لئے 5 ایکڑ زمین لینا اسلام کے منافی ہے ۔مسجد کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے اجودھیا میں 5 ایکڑ زمین دستیاب کرنے کی ہدایت کے بعد بورڈ کی جانب سے زمین نہ لینے کے فیصلے کے شرعی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورد کے سکریٹری مفتی محفوط عمرین نے کہا کہ ‘‘ایک بار مسجد جہاں بنا دی جاتی ہے وہ شرعی طور پر تاقیامت مسجد ہی رہتی ہے ۔
اس کو کسی دوسرے مقام پر منتقل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے عوض میں کسی بھی قسم کا بدل قبول کرنا جائز نہیں ہے خواہ ہو کسی بھی شکل میں ہو۔
شریعت کے اسی نقطہ نظر کے پیش نظر بورڈ نے زمین بھی نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے بابری مسجد کے کنوینرو مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے ممبر و اس قضیہ میں وکیل ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ ہماری عبادت گاہ کو توڑا گیا تھا اور آئین میں حاصل ہمارے حقوق کے تحت ہم نے عدالت میں ٹائٹل سوٹ فائل کیا تھا یہ انصاف کی روح کے عین مخالف ہے کہ ٹائٹل سوٹ کے معاملے میں ہمیں دوسری جگہ پر تھوڑی سی زمین فراہم کردی جائے لہذا ہم بورڈ میں ریویو پٹیشن داخل کریں گے اور اس کے لئے اس قضیہ میں مدعی مولانا محفوظ الرحمان، محمد عمر اور مصباح الدین بورڈ کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینئر وکلاء سے بات کرنے کے بعد اگر ضرورت پڑی تو اس معاملے میں جودیگر مدعین ہیں ان کے حلف نامےکو بھی لگایا جائے گا۔ سید قاسم رسول الیاس نے بورڈ کے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ فیصلے کا احترام کرتا ہے لیکن فیصلے سے مطمئن نہیں ہے ۔ عدالت عظمی کا فیصلہ سمجھ سے پرے ہے اور پہلی نظر میں ہی غیر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
مجلس عاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو اصول انصاف کے مطابق نہیں پاتا۔بورڈ کا احساس ہے کہ جب 23/22 دسمبر کی رات میں جبراََ رام چندر جی کی مورتی رکھا جانا غیر قانونی تھا تو اس طرح سے غیر قانونی طور سے رکھی گئی مورتیوں کو ‘‘ڈائیٹی’’ کیسے مان لیا گیا ہے جو ہندو دھرم شاستر کے مطابق بھی‘‘ ڈائیٹی ’’ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ کے مطابق جب بابری مسجد میں 1857 تا1949 تک مسلمانوں کا قبضہ اور نماز پڑھا جانا ثابت ہے تو کس بنیاد پر مسجد کی زمین مقدمہ نمبر 5 کے مدعی نمبر1 کو دے دی گئی۔ساتھ ہی آئین کی دفعہ 142 کا استعمال کرتے وقت معزز ججوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ104(اے )اور 51(1) کے مطابق مسجد کی زمین کے بدلنے یا کسی دوسرے کو ٹرانسفر کرنے سے مکمل منع کیا گیا ہے تو وقف ایکٹ کے درج اس قانونی روک کو دستور کی دفعہ 142 کے تحت مسجد کی زمین کو بدلے میں دوسری زمین کیسے دی جاسکتی ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ نے اپنے دیگر فیصلوں میں وضاحت کررکھی ہے کہ دفعہ 142 کے اختیارات معزز ججوں کے لئے لامحددو نہیں ہیں۔
بابری مسجد کے اہم فریق یو پی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے چیئر مین زفر فاروقی کی جانب سے ریویو پٹیشن فائل نہ کیے جانے کے اعلان پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ بابری مسجد کی جانب سے جو بھی پٹیشن عدالت عظمی میں ڈالی گئی تھی کورٹ نے اسے مسلم سماج کے ‘ریپرزنٹیٹیو’(نمائندہ) کے طور پر قبول کیا ہے اس لئے ان کے اعلان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ساتھ ہی انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ وقف بورڈ بھی مسلموں کا نمائندہ ہے اور بورڈ بھی لہذا قومی امکانات ہیں کہ وقف بورڈ پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے پر غور کرے گا اور جو بہتر ہوگا وہ کرے گا۔
ظفر یاب جیلانی نے ریویو پٹیشن داخل کرنے کو آئین میں حاصل حقوق کا استعمال بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص کو اسے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں گرداننا چاہئے ۔نظرثانی کی بات پر سماج کا ایک طبقہ ایسا تأثر دے رہا کہ جیسے ہم آئین کے خلاف کوئی کام کر رہے ہوں۔یہ ہمارا آئینی حق ہے لہذا بورڈ نے آئین کے مطابق نظر ثانی کی اپیل داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے دلائل کو سننے کے بعد آگے کا فیصلہ کرے ۔
ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کسی بھی تنظیم کا سیاسی نمائندہ نہیں ہے ۔اس کے فیصلے کو سیاسی رنگ نہ دیاجائے ۔ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کی زمین دی جائے کیونکہ وہاں پر بابری مسجد تعمیر تھی اور اسے مسمار کیا گیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ ‘‘دارالعلوم ندوۃ العلماء’’ میں ہونی تھی لیکن ضلع انتظامیہ کے اچانک منع کردینے سے بورڈ نے میٹنگ ممتاز پی جی کالج میں منعقدکی گئی۔ظفریاب جیلانی نے ضلع انتظامیہ پر جانبدارانہ کاروائی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہم ضلع انتظامیہ کی اس کارروائی کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔
میٹنگ میں بورڈ کے صدرمولانا سید رابع حسنی ندوی،بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی، جمعیۃ علماء کےصدر مولانا ارشد مدنی، مولانا یٰسین علی عثمانی، مولانا محمود مدنی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، قاسم رسول الیاس، ایم آئی ایم صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی، مسلم پرسنل لاء کے نائب صدر مولانا سید جلال الدین عمری اور ڈاکٹر اسماء زہرا سمیت بورڈ کے تقریبا 45 اراکین نے شرکت کی ۔