شارلین پورٹر
صومالیہ کے ایک کلینک میں ایک کم سن بچی ٹی بی کے علاج کی منتظر ہے۔واشنگٹن‘ اگر خصوصی توجہ دی جائے تو ہر سال تپ دق (ٹی بی) کے شکار 74,000 کم سن ترین بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ امریکہ اور بین الاقوامی گروپوںکے ایک اتحاد نے یکم اکتوبر کو ایسا کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے جسے انہوں نے 15 سال سے کم عمر بچوں کے تپ دق کے علاج کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا خصوصی منصوبہ قرار دیا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے عالمی تپ دق پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میریو ریوگلیون نے کہا، ” ٹی بی کی وجہ سے اگر کوئی ایک بچہ بھی مر جائے تو یہ بہت زیادہ بچوں کے مرنے کے برابر ہے”۔ انہوں نے مزید کہا،”ٹی بی قابل بچاو¿ اور قابل علاج ہے، اور یہ راہ عمل ان فوری اقدامات پر توجہ مرکوز کرتی ہے جو حکومتیں اور ان کے شراکت دار، بچوں کی اموات کو روکنے کے لئے اٹھا سکتے ہیں۔”
صحت کے اداروں کے اتحاد نے، جس میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی اور امراض پر قابو پانے اور بچاو¿ کے مراکز (سی ڈی سی) شامل ہیں، اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ بچے کیوں بلاوجہ مر رہے ہیں۔ جب ان کے ٹی بی کے شکار ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو تے ہیں تو ان کا معائنہ شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ ان کی ٹی بی کی علامات کو غلط طور پر بچپن کی دیگر بیماریاں سمجھا جاتا ہے۔ اگر چہ ان کی مناسب تشخیص اور علاج ہو جا تا ہے تاہم بچوں کے لئے ٹی بی ادویات کی بہترین خوراک اور دورانیے کے بارے میں تحقیق کا فقدان ہے۔
بچپن میں تپ دق کے لیے راہ عمل: صفراموات کی جانب ان مشکلات پر قابو پانے کے طریقے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سی ڈی سی کے مرکز برائے عالمی صحت کے ڈاکٹر ٹام کنیان نے کہا، “موجودہ وسائل کو مزید بڑھا کر اور مستقبل کے لیے بہتر طرز فکر اپنانے میں سرمایہ کاری کے ذریعے،
ہم اس چھپے ہوئے وبائی مرض کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان وسائل کو صحت کی نگہداشت کے محاذ پر موجود کارکنوں کے ہاتھوں میں دینا چاہیے اور تپ دق کے خطرے سے دوچار بچوں کی شناخت کرنے کے ہر ایک موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔”
یہ راہ عمل بچوں میں ٹی بی کے خطرات کے بارے میں کمیونٹی کے صحت کے محاذ پرکام کرنے والے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے اور مہارتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اس مرض کے لیے بچوں کا مسلسل معائنہ نہیں کیا جاتا خواہ وہ کسی متاثرہ بالغ شخص کے ساتھ یا کسی ٹی بی کی زیادہ خطرے سے دوچار کمیونٹی میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں۔
تحقیقی نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنسی تحقیق، صحت سے متعلق پالیسی کی منصوبہ بندی اور طبی پریکٹس سمیت صحت کی نگہداشت کے نظام کی ہر سطح پر، بچوں اورنوجوانوں کی ضروریات کو ان میں شامل کیا جانا چاہئے۔
بچوں میں ٹی بی کا تدارک کرنے کی اس نئی پیش رفت کا آغاز 2012 میں شروع ہونے والی “ایک تجدید شدہ وعدہ” Promise Renewed Aنامی مہم کے نتیجے میں ہوا۔ اس مہم سے 175 ممالک نے وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے کم عمر بچوں میں قابل بچاو¿ امراض کا مقابلہ کرنے اور ان کے نوجوانی اور بلوغت میں پہنچنے کے امکانات کو بڑھانے کی ضرورت اجاگر ہوئی ہے۔
عالمی صحت کے بہت سارے مسائل کی طرح، غربت بچوں کے ناقص علاج کی اہم وجہ ہے۔ یونیسیف کے ڈائریکٹر برائے پروگرامز، نکولس علیپوئی نے کہا ” ان میں سے اکثر بچے غریب ترین اورغیرمحفوظ ترین گھرانوں میں رہتے ہیں۔ یہ غلط ہے کہ کوئی بچہ ایک سادہ اور سستے علاج کے انتظار میں مرجائے، خاص طور پر جہاں کمیونٹی کی سطح پر زندگی بچانے والے علاجوں کے متبادلات موجود ہوں۔”
اتحاد کا کہنا ہے کہ تپ دق کی تشخیص کو کمیونٹی میں زچہ و بچہ کی طبی نگہداشت کے ساتھ مربوط کرنا، بچوں کی اموات کو کم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ بین الاقوامی طبی گروپس بھی اس مرض سے نمٹنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں زیادہ وسائل صرف کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک اندازے کے مطابق ٹی بی کے شکار بچوں اور ایچ آئی وی اور ٹی بی کے بیک وقت شکار افراد کی ضروریات کو مناسب انداز میں پورا کرنے کے لیے 120ملین ڈالر کی اضافی رقم درکار ہوگی۔