القدس کے قدیم شہر میں آباد کاروں کے درمیان 9 مراکشی نژاد خاندان بھی آباد ہیں۔ ان خاندانوں میں سے الحاجہ عائشہ مصلوجی بھی ہیں جو قدیم القدس میں ’’مراکشی دروازے‘‘ کالونی سے متصل ایک کونے میں مقیم ہیں۔ اس کالونی کو اسرائیل نے 1967 میں شہر پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے چند گھنٹے بعد تباہ کردیا تھا۔
کئی دہائیاں قبل عائشہ مصلوجی کے والد مراکش کے شہر ’’مراکش‘‘ سے القدس آئے تھے ۔ اس کے بعد وہ البراق دیوار کے سامنے محلے میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہ محلہ مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار سے منسلک ہے۔ یہودی اسے “دوسرے ہیکل” کا باقی ماندہ حصہ سمجھتے ہیں۔ تاہم اسرائیل نے اپنی تنصیبات کو منہدم کرنے کے بعد پورے محلے کا وجود سے ہی ختم کرڈالا۔ 132 مکانات، دکانیں اور مساجد مسمار کی گئیں۔ مقصد یہودیوں کے لیے البراق سکوائر کو توسیع دینا تھا۔ اس دوران بلند علاقہ میں ایک چوک کی جگہ کو نظر انداز کردیا گیا ۔ یہ جگہ ’’ المغاربہ‘‘ اور ’’ الشرف‘‘ محلوں کے درمیان ہیں۔ اسی جگہ پر مراکش کے یہ 10 کے قریب خاندان آباد ہیں۔
چوک کی طرف جانے والے علاقے کے داخلی راستوں میں سے ایک کے قریب ایک چھوٹا دروازہ ہے جو اس کونے کی طرف جاتا ہے جس کے اوپر مراکش کی بادشاہی کا جھنڈا لگا ہوا ہے اور اس میں کئی مکانات اور ایک مسجد موجود ہیں۔
خاندان منتشر ہو گئے
البراق سکوائر کے اطراف موجود اسرائیلی جھنڈوں میں مراکشی جھنڈا راہگیروں اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے نمایاں طور پر توجہ حاصل کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ الحاجہ عائشہ مصلوجی نے بتایا کہ ان کے والد مسجد اقصیٰ کی زیارت کرنے کے لیے القدس آئے تھے۔ انہوں نے ’’ المغاربہ‘‘ محلے کے ایک گھر میں رہائش اختیار کرلی۔ اسی گھر میں میری والدہ کے ہاں 10 بچے پیدا ہوئے۔ 1973 میں اسرائیل نے اس گھر کو مسمار کردیا۔ عائشہ نے بتایا کہ ہمارا خاندان مراکش سے واپسی کے بعد 1978 میں ’’المغاربہ‘‘ محلے کے اس کونے میں مقیم ہوا۔
1200 افراد پر مشتمل اس محلے کو مسمار کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس محلے کے لوگ القدس کے پڑوس میں یا مغربی کنارے میں منتشر ہوگئے تھے۔ کچھ خاندان مراکش کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔
مادر وطن سے تعلق
عائشہ نے اپنی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب ملکوں کے لیے یہ زیادہ مناسب تھا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ القدس میں ان لوگوں کے لیے ایک نیا محلہ تعمیر کرے۔ عائشہ نے کہا ستر کی دہائی میں اس کونے پر مراکشی پرچم بلند کیا جانا قابل تعریف ہے۔ یہ مادر وطن سے “تعلق” کی علامت ہے۔ عائشہ نے کہا اس کارنر کو باقی رکھنے کی اجازت دینے اور اس پر مراکشی پرچم لہرانے کی وجہ تل ابیب کو رباط سے جوڑنے والے اچھے تعلقات ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مراکش سے دشمنی اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ عائشہ کے پاس القدس کا نیلا شناختی کارڈ ہے جسے القدس میں اسرائیلی رہائشی کارڈ سمجھا جاتا ہے۔ عائشہ کے پاس مراکش کے پاسپورٹ کے علاوہ یروشلم کے باقی لوگوں کی طرح اردنی پاسپورٹ بھی ہے۔
پہلے سے منصوبہ بندی
فلسطینی مؤرخ ’’نظمی الجعبہ ‘‘ کا خیال ہے کہ اسرائیل نے تقریباً 100 سال پرانے منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 1967 میں 10 جون کو کرفیو اٹھانے کے فوراً بعد ’’ المغاربہ‘‘ محلے کو مسمار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا یہ انہدام البراق سکوائر میں یہودیوں کی نماز کی جگہ کو وسعت دینے کے ایک پیشگی منصوبے پر عمل درآمد کے طور پر کیا گیا تھا۔ البراق سکوائر کو ’’لیگ آف نیشنز ‘‘نے مسلمانوں کی نجی ملکیت قرار دیا بشرطیکہ یہودیوں کو اس میں نماز ادا کرنے کا حق حاصل ہو۔
فلسطینی مورخ ’’ نظمی الجعبہ‘‘ نے مزید کہا کہ اسرائیل نے المغاربہ محلے کے اس کونے کو اپنے پاس رکھا کیونکہ یہ ’’ الشرف ‘‘ محلے کے شہری تانے بانے کا حصہ ہے جسے اسرائیل نے یہودی کوارٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کی مسماری شہری تسلسل میں خرابی کا باعث بنے گی۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان گھروں کو مسمار کرنے کا منصوبہ اس لیے بھی روک دیا گیا تھا کیونکہ اس سے 1948 سے پہلے کی یہودی املاک کو متاثر ہونا تھی۔
القدس کے امور کے ماہر فخری ابو دیاب نے بتایا کہ اسرائیل نے ’’ الشرف ‘‘ محلےخ کا نام یہودی کوارٹر میں تبدیل کر دیا اور زیادہ تر فلسطینیوں کو بے دخل کردیا اور ان کی جگہ اسرائیلی آباد کاروں کو یہاں لاکر بسا دیا۔ اسرائیل نے البراق سکوائر القدس پر اپنے قبضے کے بعد سے تین بار توسیع کے لیے کام کیا تاہم اس نے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے مراکش کے خاندانوں کو تنگ نہیں کیا۔ 19ویں صدی میں کچھ یہودیوں نے قریبی جگہوں کی ملکیت حاصل کرکے دیوار البراق پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
البراق انقلاب
’’البراق ’’ دیوار کی یہودیوں کے دوروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ گزشتہ صدی کے بیس کی دہائی میں مسلمانوں نے اس د یوار کے حوالے سے خطرہ محسوس کرلیا تھا اور 1929 میں ’’ البراق‘‘ انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی اور یہودی مارے گئے تھے۔ فلسطین پر اپنے مینڈیٹ کے دوران برطانیہ نے 1928 میں اپنے “وائٹ پیپر” میں تسلیم کیا تھا کہ دیوار البراق اور اس کے آس پاس کا علاقہ مسلمانوں کا ہے۔