محمودآباد : (صالحہ رضوی، جرنلسٹ) : راجہ محمد امیر محمد خاں (راجہ محمودآباد) کی مجلس سوم کو بروز جمعہ بوقت صبح دس بجے ممتاز العلماء مولانا سید سیف عباس نقوی نے خطاب کیا۔ مجمع کثٰیر نے راجہ محمودآباد کی مجلس میں شرکت کی ۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ صبح سب سے پہلے امام باڑاہ قلعہ محمود آباد اپنے آبائی وطن میں قرآن خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اشکبار آنکھیں ہر سمت راجہ محمود آباد کو تلاش کر رہی تھی۔ موصوف نے مسلک و مذہب کی پرواہ کئے بنا ضرورت مند لوگوں کی خلوص و دل سے مدد و خدمت کی۔
آپ نے راجہ ہوتے ہوئے ایک عام انسان کی طرح سادگی سے زندگی بسر کی۔ آپکی شخصیت میں ایسی خوبیاں تھی جس کے سبب سب کے دلوں پر راج کرتے تھے۔
معلوم ہو کہ ٤ اکتوبر صبح تڑکے اس المناک خبر نے ہر مرد و زن کمسن بچے و بوڑھے لوگوں رُلا دیا۔ جیسے ہی موصوف کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی سب کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
معلوم ہو کہ راجہ صاحب کا انتقال انکی رہائیش گاہ محمود آباد ہاوس قیصر باغ لکھنومیں
٤ اکتوبر تقریبا دو ببجے صبح ہوا. وہ عرصہ دراز سے علیل تھے اور بالا خر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ١٩٤٣ میں راجہ محمود آباد صاحب کی ولادت ہوئی تھی اور عرصہ دراز تک وہ سرکاری ظلم و زیادتی کے خلاف نبرد آزما رہے۔ انکی املک کو اس لئے بہ حق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا کہ انکے والد پر الزام تھا کہ انہوں نے تقسیم ہند میں شرکت کی تھی اور اسی لئے انکی ساری املاک کو دشمنوں کی جائداد کے زمرے میں رکھ دیا گیا تھا۔
مگر راجہ صاحب نے 35 سال سے زیادہ عرصہ تک قانونی جنگ لڈی اور انجام کار ملک کی سپریم کورٹ نے انکے حق میں جائداد کو واگزار کیا اور کہا کہ انکے والد کی املاک کے وارث راجہ محمد امیر محمد خان ہیں، مگر بی جے پی سرکار نے پارلیمان میں قانون بنا کر انکی جائداد کو حقدار تک نھیں پہنچنے دیا۔ قلعہ محمود آباد کی زیادہ تر املاک وقف سے متعلق ہے اور انکا اندراج شیعہ وقف بورڈ میں ھے۔
راجہ محمود آباد انتہائی مہذب، متمدن اور ادبی شخصیت کے مالک تھے انکو ایسٹرو فیزکس میں مہارت حاصل تھی، لاتعاد اشعار، انکی زبان پر رہتے تھے، گفتگو کا ایک خاص لہجہ اور نشست و برخاست کا ایک منفرد انداز ملاقات کرنے والوں کا دل چھو لیتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں انکا کوئی ثانی نہیں تھا اور گھنٹوں انکے کلام میں عقیدت مندان محو رہتے تھے۔ متعدد زبانوں پر انکو بیکوقت عبور حاصل تھا عربی و فارسی انکی مادری زبان جیسی تھیں ۔