سنگاپور نے بھارتی نژاد اپنے ایک شہری کو ایک کلو گرام بھنگ اسمگل کرنے کی سازش کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی ہے۔ سنگاپور میں انسداد منشیات سے متعلق دنیا کے سخت ترین کے قوانین ہیں۔
سنگاپور نے 26 اپریل بدھ کے روز ایک شخص کو بھنگ کی غیر قانونی تجارت کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی۔ اس کے اہل خانہ کی جانب سے معافی کی درخواستیں دی گئی تھیں اور موت کی سزا کے خلاف انسانی حقوق کے کارکنوں نے احتجاج بھی کیا، تاہم اس کے باوجود پھانسی پر عمل کر دیا گیا۔
منگل کے روز ہی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے سنگاپور سے اپیل کی تھی کہ وہ ایک کلو گرام کی بھنگ کی اسمگلنگ پر اپنی طے شدہ پھانسی کی سزا پر ”فوری طور پر نظر ثانی” کرے۔
تاہم سنگاپور کے ایک ادارے ‘ٹرانسفارمیٹو جسٹس کلیکٹیو’ کے کارکن کرسٹن ہان نے تصدیق کی کہ پھانسی پر عمل ہو گیا ہے اور متاثرہ خاندان کو موت کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا گیا ہے۔
46 سالہ تنگا راجو سپیاہ کو سن 2017 میں 1,017.9 گرام بھنگ ”ٹریفک کی سازش کرنے” کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ بھنگ کی یہ مقدار سزائے موت کے لیے مقرر کردہ کم از کم مقدار سے بھی دوگنا زیادہ تھی۔
عدالت نے انہیں اس کے لیے سن 2018 میں موت کی سزا سنائی تھی اور پھر اپیل کورٹ نے بھی موت کی سزا کے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
امریکہ: کرائے کے قاتل کی مدد سے بیوی کا قتل کرنے والے کو سزائے موت دے دی گئی
اقوام متحدہ کو تشویش کیوں ہے؟
سنگاپور میں انسداد منشیات سے متعلق دنیا کے سخت ترین قوانین پائے جاتے ہیں اور ملک کا اصرار ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف سزائے موت ایک مؤثر رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کا دفتر اس سے متفق نہیں ہے۔ دفتر نے ایک بیان میں کہا، ”ابھی بھی موت کی سزا کچھ ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ یہ جرم کو روکتی ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا: ”منصفانہ ٹرائل کی ضمانتوں کے مناسب عوامل اور احترام کے بارے میں ہمیں خدشات بھی ہیں۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا دفتر حکام سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس پھانسی پر عمل کو روک دیں۔”
منگل کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایک بریفنگ میں ترجمان روینا شمداسانی نے سنگاپور کی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ منشیات سے متعلق جرائم کی سزائے موت پر ”رسمی پابندی” عائد کرے۔
ان کا کہنا تھا: ”منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت کا نفاذ بین الاقوامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔”
سنگاپور نے برانسن کی تنقید کو مسترد کر دیا
برطانوی ارب پتی شخصیت رچرڈ برانسن جنیوا میں قائم گلوبل کمیشن آن ڈرگ پالیسی کے رکن ہیں اور انہوں نے بھی سنگاپور پر اس بات کے لیے زور دیا تھا کہ وہ تنگا راجو کی پھانسی کو روک دے۔
برانسن نے پیر کے روز اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ تنگا راجو اپنی گرفتاری کے وقت منشیات سے ”کہیں بھی قریب نہیں تھے” اور اس طرح سنگاپور ایک بے گناہ شخص کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ہے۔
اس کے جواب میں سنگاپور کی وزارت داخلہ نے منگل کے روز کہا کہ تنگا راجو کا جرم کسی بھی معقول شک سے بالاتر ثابت ہو چکا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ برانسن نے اس طرح کے الزامات لگا کر، ”سنگاپور کے ججوں اور ہمارے فوجداری نظام انصاف کی بے عزتی کا مظاہرہ کیا ہے۔”
انسانی حقوق کی تنظیموں کا سزائے موت ختم کرنے مطالبہ
سنگاپور کے پڑوسی ملک تھائی لینڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں بھنگ کو جرم قرار دیا گیا ہے اور انسانی حقوق گروپ سنگاپور سے سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
سنگاپور کے بہت سے پڑوسی ممالک میں سزائے موت نہیں ہے یا وہ سزائے موت پر عمل نہیں کرتے۔ ملائیشیا ان میں سے ایک ہے جس نے اس ماہ کے اوائل میں لازمی سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر قانونی اصلاحات کو منظور کیا ہے۔
تنگا راجو کے اہل خانہ نے سنگاپور کے صدر کو خطوط بھیجے تھے، جس میں معافی اور دوبارہ مقدمے کی درخواست کی گئی تھی۔ ملک میں موجود یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کے مقامی مشنوں نے بھی مشترکہ طور پر موت کی سزا نہ دینے کی اپیل کی تھی۔
سنگاپور نے گزشتہ دو برس سے بھی زیادہ وقفے کے بعد مارچ 2022 میں پھانسی پر دوبارہ عمل درآمد شروع کیا۔ گزشتہ برس ملک میں جن گیارہ افراد کو پھانسیاں دی گئی تھیں، وہ سب منشیات کے جرم میں تھیں۔