سپریم کورٹ نے بدھ کو مرکز کے اہم آدھار کارد پروگرام اور اس سے وابستہ 2016 کے قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کچھ عرضیوں پر اپنا فیصلہ سنادیا ۔ عدالت نے کہا کہ آدھار آئینی طور پر ویلڈ ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت نے حکومت سے ڈیٹا کے تحفظ کیلئے سخت قدم اٹھانے کی بھی بات کہی ۔
چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے 38 دنوں تک چلی طویل سماعت کے بعد 10 مئی کو اس معاملہ پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا ۔ معاملہ میں ہائی کورٹ کے سابق جج کے ایس پتاسوامی کی عرضی سمیت کل 31 عرضیاں داخل کی گئی تھیں ۔
عدالت عظمی نے کہا کہ آدھار کے ڈیٹا کو پانچ سال تک نہیں رکھا جاسکتا ۔ جسٹس سیکری نے کہا کہ حکومت جتنا جلد ممکن ہوسکے اتنا جلد ڈیٹا پروٹیکشن لا لے کر آئے ۔ جسٹس سیکری نے مزید کہا کہ ڈیٹا شیئرنگ پر فیصلہ جوائنٹ سکریٹری یا اس کے اوپر کے لوگ کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آدھار سے آبادی کے بڑے حصے کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
عدالت عظمی کے فیصلہ کے مطابق انکم ٹیکس کی دفعہ 139 اے اے کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ بینک اور پرائیویٹ کمپنیوں میں آدھار ضروری نہیں ہے ۔ عدالت نے کہا کہ موبائل کمپنی آدھار کارڈ نہیں مانگ سکتی ۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت نے کہا کہ بینک اکاونٹ کیلئے بھی آدھار کارڈ ضروری نہیں ہے ۔ تاہم پین کارڈ لنکنگ کیلئے آدھار کارڈ ضروری ہوگا ۔