افغانستان کا دارالحکومت کابل ایک مرتبہ پھر دھماکوں سے لرز اٹھا اور 3 حملوں میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوگئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان دھماکوں کو افغانستان اور کابل میں تشدد میں اضافے کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جہاں ایک طرف امریکا، طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی کوششوں میں مصروف ہے تو وہیں جنگ کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کابل میں ہونے والے دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب 3 روز بعد 28 ستمبر کے صدارتی انتخابات کے لیے شروع ہونے والی باضابطہ مہم شروع ہونے والی ہے، تاہم ابھی تک کسی گروپ کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق پہلا دھماکا صبح 8 بجکر 10 منٹ پر اس وقت ہوا جب ایک خودکش بمبار موٹرسائیکل سوار نے مشرقی کابل میں بس کو نشانہ بنایا، یہ بس وزارت مادنیات اور پیٹرولیم سے تعلق رکھتی تھی۔
نصرت رحیمی کا کہنا تھا کہ دیگر 2 دھماکے بھی مشرقی کابل میں ہوئے، جس میں ایک کار بم دھماکا بھی شامل تھا۔ ترجمان نے 7 افراد کے ہلاک اور 21 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تعداد تمام دھماکوں سے ہے یا صرف ایک دھماکے سے یہ افراد ہلاک ہوئے۔
ادھر افغان وزارت صحت کے ترجمان وحیداللہ میر نے بھی ہلاک افراد کی تعداد یہی بتائی۔
واضح رہے کہ امریکا ایک ایسے معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے جس میں افغانستان سے غیرملکی فورسز کی واپسی کے بدلے طالبان کی جانب سے مختلف ضمانتیں دی جائیں، جس میں یہ وعدہ بھی شامل ہو کہ ملک دہشت گرد گرہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں بنے گا۔
اس بارے میں کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ عسکریت پسند مذاکرات میں زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے حملوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ادھر امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل جو اس ہفتے کابل میں ہیں، ان کا آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ جانے کا امکان ہے، جہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور کچھ روز میں ہوگا۔
ایک طرف جہاں مذاکرات کی بات ہورہی وہی امریکا نے اس سال طالبان کے خلاف اپنی فضائی مہم کو تیز کردیا تھا جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کی زیادہ سے زیادہ ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر اعداد و شمار پر نظرڈالیں تو اقوام متحدہ کے مطابق 2018 میں اس جنگ میں 3 ہزار 804 شہری ہلاک ہوئے، جس میں 927 بچے بھی تھے۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد افغانستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا اظہار مذمت
دوسری جانب پاکستان نے کابل میں سرکاری ملازمین کو لے جانے والی بس پر دہشت گرد حملے پر سخت مذمت کا اظہار کیا۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم سوگوار خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ایک الگ ٹوئٹ میں لکھا کہ ’پاکستان اپنے تمام فارمز میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، پاکستان، افغانستان میں مکمل امن اور استحکام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا‘۔