افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحمی نے بتایا کہ صبح کے مصروف ترین اوقات میں یہ دھماکا کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ کے شمال اور وزارت داخلہ کی عمارت سے منسلک علاقے میں کار بم دھماکا ہوا، جس میں ہلاک ہونے والے تمام شہری ہیں۔
نصرت رحمی نے مزید بتایا کہ ’یہ ابتدائی معلومات ہیں لیکن مزید تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی’، جس کے حوالے سے آگاہ کردیا جائے گا۔
علاوہ ازیں وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ کار بم دھماکا خود کش حملہ تھا اور حملہ آور نے حکومتی گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے 2016 میں اغوا کیے جانے والے مغربی باشندوں کی رہائی کے بدلے زیر حراست 3 طالبان رہنماؤں کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
ان تینوں قیدیوں میں انس حقانی بھی شامل ہیں، جنہیں 2014 میں پکڑا گیا تھا اور ان کا نائب طالبان اور حقانی نیٹ ورک کا سربراہ تھا۔
اشرف غنی نے کہا تھا کہ مغربی باشندوں میں ایک آسٹریلوی اور ایک امریکی پروفیسرز ہیں جنہیں کابل یونیورسٹی سے اغوا کیا گیا تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ انہیں کب اور کہاں رہا کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا کہ جنگ زدہ ملک افغانستان میں گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سہ ماہی میں شہریوں کی ہلاکتوں میں 3 گنا سے زائد اضافہ ہوا۔
آفس آف دی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان کے حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر ہلاکتیں ہوئیں لیکن ان ہلاکتوں کی ذمہ دار امریکی حمایت یافتہ افغان فورسز بھی ہیں۔
سگار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کا امدادی مشن یکم جنوری سے 30 ستمبر تک ہونے والی تمام شہری ہلاکتوں میں اضافے کا الزام حکومت مخالف عناصر پر ڈالتا ہے۔
علاوہ ازیں افغان امن عمل سے متعلق امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کے بعد افغانستان میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کی بحالی کے لیے دوبارہ کوششیں تیز کردی ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے افغان حکومتی اراکین کے علاوہ پاکستان میں بھی اہم ملاقاتیں کی تھیں۔