کابل۔ افغانستان میں کوئلہ کے کان میں کام کرنے والے ایک مزدور کی بیٹی ملک کے یونیورسیٹی داخلہ امتحان میں اول آئی ہے۔ 18 سال کی شمسیہ علی زادہ نے 1 لاکھ 70 ہزار طلبہ کو پیچھے چھوڑ کر پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی اور غیر ملکی سفارت کاروں جن میں امریکی نمائندہ بھی شامل ہیں، نے شمسیہ علی زادہ کو مبارک باد دی ہے۔
جشن کا یہ موقع افغانستان میں اس وقت آیا ہے جب حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی ہے۔ وہیں، طالبان نے 1997 اور 2001 کے درمیان لڑکیوں کے اسکول جانے پر روک لگا رکھی تھی۔
میرے خواب، میرے ڈر سے بڑے ہیں: شمسیہ
شمسیہ علی زادہ نے ملک میں طالبان کی واپسی پر اپنا ڈر ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب اپنی پڑھائی کے راستے میں سیاست کو نہیں آنے دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے طالبان کی واپسی کو لے کر ڈر ہے لیکن میں اپنی امید کھونا نہیں چاہتی، کیونکہ میرے خواب، میرے ڈر سے بڑے ہیں۔ شمسیہ نے بتایا کہ ان کے والد افغانستان کے شمال میں ایک کوئلہ کان میں کام کرتے ہیں لیکن ان کی پڑھائی کو دھیان میں رکھ کر انہوں نے پورے کنبے کو کابل بھیج دیا جس سے شمسیہ کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ میرے کنبے کے تئیں میری ذمہ داری کے احساس نے ہی مجھے یہاں پہنچنے میں مدد کی ہے۔ میڈیکل کی پڑھائی کرنا اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنا ہی میرا واحد خواب ہے۔
طالبان نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوں
طالبان نے بھی کہا ہے کہ وہ بدل چکے ہیں اور لڑکیوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔ افغانستان میں ابھی بھی بہت سارے لوگ اس بات سے ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر طالبان کی حکومت دوبارہ آ گئی تو شاید خواتین کی صورت حال پھر سے خراب ہو سکتی ہے۔