سر پر اسکارف اب کافی نہیں ہے۔ طالبان اُن ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیوروں کو بھی سزا دیتے ہیں، جو خواتین کو بغیر برقعہ کے کہیں لے جاتے ہیں۔ نتیجتاً اب مزید کم خواتین شہروں میں سفر کرتی ہیں۔
طالبان اُن ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیوروں کو بھی سزا دیتے ہیں، جو خواتین کو بغیر برقعہ کے کہیں لے جاتے ہیں
مغربی افغان شہر ہرات کے ایک رکشہ ڈرائیور فریدون اب خواتین کو اپنی سروس فراہم نہیں کرتے ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے اگر کسی ایسی خاتون کو بٹھایا، جس کا جسم مکمل طور پر ڈھکا ہوا نہ ہوا تو طالبان ان کو بھی ماریں گے اور ان کا رکشہ بھی ضبط کر لیا جائے گا۔
کئی مرتبہ تو انہوں نے خودطالبان کے ہاتھوں خواتین کو بے توقیر ہوتے دیکھا۔ فریدون بتاتے ہیں کہ طالبان ان کے رکشے کو کئی بار روک چکے ہیں اور برقعہ نہ پہننے والی خواتین کو رکشے سے باہر نکالا گیا تاکہ ان کی بے عزتی کی جا سکے۔ خود فریدون کو بھی سزا دی گئی تھی۔
دوسری جانب طالبان کے اقتدار میں آنے کے دو برس بعد بھی کئی افغان خواتین ایسی ہیں، جو ان کے احکامات کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سی خواتین برقعہ پہننے سے انکار کرتی ہیں اور اپنے چہرے بے نقاب کر کے سڑکوں پر نکلتی ہیں۔
ایک سال قبل طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کے لیے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنا لازمی قرار دے دیا تھا۔ ان کا مئی 2022 میں ایک فرمان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں (خواتین کو) اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپ لینا چاہیے، ”کیونکہ یہ روایتی اور قابل احترام عمل ہے۔‘‘
حال ہی میں خواتین کے بیوٹی پارلر بھی بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ کئی دوسری پابندیوں کے ساتھ ساتھ طالبان کی ”اچھائی پھیلانے اور برائی روکنے‘‘ کی وزارت نے رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو حکم دیا ہے کہ بغیر حجاب والی خواتین کو سروس نہ فراہم کی جائے۔
اس وزارت کے ایک نمائندے عاکف مہاجر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”جب خواتین سفر کریں تو ان کے ساتھ کسی محرم (انتہائی قریبی رشتہ دار یا شوہر) کا ہونا ضروری ہے۔ شہر کے اندر سفر کرتے وقت کسی بھی غیر محرم مرد کو ان کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں مکمل حجاب پہننے کی ضرورت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ چادر پہنیں یا نہ پہنیں لیکن ان کا حجاب مکمل طور پر اسلامی ہونا چاہیے۔‘‘
تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ”مکمل اسلامی حجاب‘‘ وہ کس حجاب کو سمجھتے ہیں؟
ہرات سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون دینا نے بتایا ہے کہ اسے کئی بار رکشے سے باہر نکالا گیا اور اس کے ساتھ زبانی بدسلوکی کی گئی کیونکہ اس نے پورے جسم کو ڈھانپنے کے بجائے لمبا کوٹ اور سر پر اسکارف پہن رکھا تھا۔
اس بات کی تصدیق کابل سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور مرزا نے بھی کی ہے، جس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان نے انہیں متعدد بار کہا ہے کہ بغیر نقاب یا برقعہ کے خواتین کو ٹیکسیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے، بصورت دیگر ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور ان کی ٹیکسی ضبط کر لی جائے گی۔
افغانستان میں خواتین اور بچوں کے لیے ایک فلاحی تنظیم کی بانی مریم معروف ارون کہتی ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کا بنیادی مقصد خواتین کو عوامی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔
طالبان نے رواں برس فروری میں اعلان کیا تھا کہ میڈیکل کی طالبات کو فائنل امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قبل ازیں دسمبر میں انہوں نے پہلے ہی خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگا دی تھی۔
افغان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں خواتین کے حقوق کے معاملے پر خاموش نہ رہا جائے۔ انہیں عالمی برادری کی حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے جبکہ ہرات کی دینا بھی یہی مطالبہ کرتی ہیں۔