سوشل میڈیا پر دو دن پہلے ہی سرف ایکسل کے بائیکاٹ کے لئے مہم چل رہی تھی۔ بھائی چارے کا پیغام دینے کی کوشش کر رہے سرف ایکسل کے ایک اشتہار کی وجہ سے لوگ اسے بائیکاٹ کرنے کی بات کرنے لگے۔ دراصل، اس اشتہار میں ایک ہندو بچی اور ایک مسلم بچے کو لے کر مختصر سی کہانی دکھائی گئی ہے جس کی سوشل میڈیا پر ایک گروہ مخالفت کر رہا ہے۔
تقریبا ایک منٹ کے اس اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ سفید ٹی شرٹ پہنی ایک ہندو لڑکی پوری گلی میں سائیکل لے کر گھومتی ہے اور بالکنی اور چھتوں سے رنگ پھینک رہے سبھی بچوں کے رنگ اپنے اوپر ڈلوا کر ختم کرا دیتی ہے۔
رنگ ختم ہو جانے کے بعد وہ اپنے مسلم دوست کے گھر کے باہر جا کر کہتی ہے کہ ’ باہر آ جا سب ختم ہو گیا‘۔ دوست گھر سے سفید کرتا۔ پائجامہ اور ٹوپی پہن کر نکلتا ہے ۔ بچی اسے سائیکل پر بٹھا کر مسجد کے دروازے پر چھوڑتی ہے۔
آخر میں اس کے سیڑھی چڑھتے وقت بچہ کہتا ہے کہ نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ بعد میں رنگ پڑے گا۔ اس پر اس کا مسلم دوست مسکرا دیتا ہے۔ اشتہار کے اخیر میں کہا جاتا ہے ’ اپنے پن کے رنگ سے اوروں کو رنگنے میں داغ لگ جائیں تو داغ اچھے ہیں‘۔ بتا دیں کہ سرف ایکسل کی روایتی ٹیگ لائن’ داغ اچھے ہیں‘ ہے۔ سرف ایکسل کے اس اشتہار کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ رنگوں کے ذریعہ سماج ساتھ آ سکتا ہے۔
ٹوئٹر پر کچھ لوگ اسے ہندو مخالف اور متنازعہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی کو لے کر سرف ایکسل کے بائیکاٹ کی بھی بات کی جا رہی ہے۔
اسی معاملہ میں ایک شخص نے کوشش کی کہ وہ سرف ایکسل کے اس اشتہار کی شکایت اس کے ’ باس‘ تک پہنچائے۔ اس کو لے کر اس نے گوگل پلے اسٹور پر مائیکروسافٹ ایکسل کی ایپ کو 1 اسٹار ریٹنگ دے دی۔ ساتھ ہی لکھا ’ بائیکاٹ سرف ایکسل۔ ہندو برودھ ہے۔ پاکستان میں جا کر بزنس کر‘۔