شملہ: وہ چنے بیچنے والا ہے… مگر قسمت کا دھنی ہے، نہ کوئی دکان، نہ کوئی بورڈ ہے… پھر بھی اسے سب جانتے ہیں، وہ پچھلے 48 برسوں سے شملہ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا خاموشی سے وقت کی گردش کو دیکھ رہا ہے۔
شملہ کے تاریخی رج گراؤنڈ سے لکڑ بازار کی طرف جاتے ہوئے راستے پر ایک بڑا سایہ دار درخت ہے جسے لوگ “ویٹنگ ٹری” کے نام سے جانتے ہیں۔ کچھ لوگ اس درخت کے نیچے دوستوں سے ملتے ہیں،
کچھ سیلفی لیتے ہیں، کچھ وقت گزارتے ہیں، لیکن اسی درخت کے نیچے پچھلے 48 برسوں سے ایک آدمی ہر روز بیٹھتا ہے جس کا نام رتن لال ہے۔ رتن لال کے لیے یہ ان کے کام کی جگہ ہے۔ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر رتن لال نے 48 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔
رتن لال 1976 سے ڈبے میں چنے بیچ رہے ہیں
68 سالہ رتن لال 1976 سے روزانہ صبح 11 بجے سے رات 9 بجے تک اس درخت کے نیچے اپنے ڈبے میں مسالے دار چنے، مونگ پھلی اور چپس لے کر بیٹھتے ہیں۔ ان کی کوئی پختہ دکان نہیں، بلکہ ایک ٹھکانہ ہے۔
اس کے باوجود رتن لال کوئی عام دکاندار نہیں بلکہ شملہ کی زندہ پہچان ہیں۔ رتن لال نے کبھی اپنے کام کو چھوٹا نہیں سمجھا اور نہ ہی اپنی قسمت سے کوئی شکوہ شکایت کی۔ بس محنت کو اپنا ساتھی بنایا اور ہر دن زندہ دلی کے ساتھ جیا۔
رتن لال نے اس شہر کو بدلتے دیکھا ہے، شملہ کی رفتار کو محسوس کیا ہے۔ رتن لال کہتے ہیں، ‘جس بچہ نے مجھ سے پانچ پیسے میں چنا خریدا تھا، آج وہ اپنے پوتے کو میرے پاس چنے خریدنے کے لیے لاتا ہے۔
میں نے ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر یشونت سنگھ پرمار سے لے کر آج کی سکھویندر سنگھ سکھو حکومت تک کا دور دیکھا ہے۔ شروع میں چنے کی پُڑیا پانچ پیسے میں بیچتا تھا لیکن آج 30 روپے میں بیچتا ہوں۔
رتن لال جو بنیادی طور پر بلاس پور کے رہنے والے ہیں، اب سردیوں میں اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں جہاں وہ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، لیکن اپریل میں جیسے ہی موسم نرم پڑتا ہے، وہ واپس اسی درخت کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں جہاں ان کے چاہنے والے، پرانے گاہک اور سیاح ان کا انتظار کرتے ہیں۔
فلم تھری ایڈیٹس میں استعمال ہوا رتن لال کا چنے والا ڈبہ
رتن لال بتاتے ہیں کہ ‘بالی ووڈ فلم تھری ایڈیٹس کے ایک سین میں شملہ کا مشہور رج گراؤنڈ دکھایا گیا ہے، جہاں چنے بیچنے والے ایک شخص کا چھوٹا سا کردار ہے۔ اس منظر میں استعمال ہونے والا چنے کا ڈبہ درحقیقت رتن لال کا تھا۔ فلم یونٹ نے یہ ڈبہ رتن لال سے کرائے پر لیا تھا تاکہ سین کو زیادہ حقیقت پسندانہ اور مقامی ٹچ دیا جا سکے۔’
بچوں نے بڑا نام کمایا
شملہ میں ہر کوئی رتن لال کے نام سے واقف ہے۔ مقامی لوگ تو انہیں جانتے ہی ہیں، لیکن سیاح بھی انہیں جانتے ہیں۔ گھڑ سواری اور ان کے مسالے دار چنے کھائے بغیر رج کا سفر ادھورا لگتا ہے۔
رتن لال کا کہنا ہے کہ ‘میں نے چنے بیچ کر اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ بچوں نے پڑھ لکھ کر خوب نام کمایا۔ ایک بیٹا پی جی آئی میں سینئر ڈاکٹر بن گیا، دوسرا ڈرگ انسپکٹر اور بیٹی سٹاف نرس بن گئی۔ سب کی شادی ہو چکی ہے اور سب اپنی زندگی میں شاد و آباد ہیں۔ یہ سب چنے کے اس چھوٹے سے ڈبے کا کمال ہے۔
پھر بھی، میں ہر روز اپنی ڈبے والی دکان لے کر یہاں بیٹھتا ہوں۔ رتن لال مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ‘بچے بولتے ہیں کہ اب کام چھوڑ دو، آرام کرو… پر میں وہ کام کیسے چھوڑ دوں جس نے مجھے پہچان دی؟’
رتن لال اب صرف ایک دکاندار نہیں بلکہ ایک کہانی ہیں
وہ شاعری لکھتے ہیں، ہنسی مذاق سے لوگوں کا دل بہلاتے ہیں اور دل سے چنے بیچتے ہیں۔ ان سے چنے خریدنا دراصل ایک تجربہ ہے۔ جیسے وقت کے کسی پرانے دوست سے ملنا۔ رتن لال کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ارادے مضبوط ہوں تو درخت کے سائے میں بھی دنیا روشن کی جا سکتی ہے۔