عزہ، 23مئی (یو این آئی) عالمی برادری کے دباؤ کے بعد غزہ میں 11 روز تک جاری رہنے والے اسرائیلی فضائی حملے ،اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور جنگ بندی کے بعد غزہ میں امداد پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق امدادی سامان لے جانے والی گاڑیوں کے قافلے اسرائیل کی جانب سے دوبارہ کھولے جانے کے بعد کرم شالوم کراسنگ کے راستے غزہ سے گزرنا شروع ہوئے جہاں اس سامان میں ضروری ادویہ، خوراک اور ایندھن شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے سینٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ نے انسانی بنیادوں پر ایک کروڑ 85 لاکھ ڈالر کے فنڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعہ کے روز ہزاروں باشندے کئی دن گھروں اور پناہ گاہوں میں بند رہنے کے بعد باہر نکلے اور پڑوسیوں سے ملاقات کی، نقصان اور تباہی کا اندازہ لگایا، سمندر کا دورہ کیا اور اپنے پیاروں کی تدفین کی۔امدادی کارکنوں نے بتایا کہ وہ معمولی وسائل کے باوجود پوری تندہی سے کام کررہے ہیں تاکہ ملبے تلے دبے ہوئے زندہ افراد تک پہنچ سکیں۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے ہیں جس کے بعد عالمی برادری کی توجہ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کی طرف مرکوز ہو گئی ہے جو اسرائیلی فضائی حملوں میں بدترین تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔
70 سالہ ناظمی دہدو نے کہا کہ اسرائیلی حملوں نے غزہ شہر میں میرا مکان تباہ کردیا، ہمارے پاس دوسرا گھر نہیں ہے۔پانچ بچوں کے والد ناظمی نے مزید کہا کہ جب تک یہ دوبارہ تعمیر نہیں ہوتا، تب تک میں اپنے گھر کے ملبے کے اوپر خیمے میں رہوں گا۔
وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 10 مئی سے اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں 66 بچوں سمیت 248 افراد ہلاک اور 1ہزار 948 زخمی ہو گئے۔حماس کے مطابق بڑے پیمانے پر علاقہ مکان زمین بوس ہونے سے قبل میدان کا منظر پیش کررہا ہے اور ایک لاکھ 20ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
دریں اثناء امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیلیوں سے کہا ہے کہ وہ یروشلم میں فرقہ وارانہ لڑائی ختم کریں اور غزہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں منظم کوششیں کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
انہوں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ابھی بھی دو ریاستی حل کی ضرورت ہے، یہ واحد جواب ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ حماس نے اسرائیل پر 4ہزار 300 سے زائد راکٹ فائر کیے جن میں سے 90 فیصد کو ان کے فضائی دفاعی نظام نے ناکارہ بنا دیا۔ ان راکٹوں نے اسرائیل میں ایک بچے سمیت 12 افراد کی جان لی جن میں ایک ہندوستانی اور دو تھائی شہری بھی شامل ہیں، اسرائیل میں تقریبا 357 افراد زخمی بھی ہوئے۔
دوسری جانب مصر کی جانب سے جنگ بندی اور صلح کرائے جانے کے بعد دونوں فریقوں نے فتح کا دعوی کیا جس میں حماس کے بعد غزہ کا دوسرا طاقتور مسلح گروہ اسلامی جہاد بھی شامل تھا۔
مصر کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ مصری کے سیکیورٹی کے دو وفود دونوں فریقین کی جانب سے معاہدے کی نگرانی کے لیے پہنچے ہیں۔
عالمی رہنماؤں نے صلح کا خیرمقدم کیا اور امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس ٓگے بڑھنے اور بہتری کے لیے کام کرنے کا نادر موقع ہے۔یورپی یونین نے تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے ایک مرتبہ پھر آواز بلند کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سفارتکار انٹونی بلنکن آئندہ دنوں میں اسرائیلی، فلسطینی اور علاقائی ہم منصبوں سے ملاقات کر کے بحالی کی کوششوں اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
روس اور چین نے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو اب تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ بات چیت کرنی ہوگی۔
واضح رہے کہ اس تشدد کا آغاز مقبوضہ بیت المقدس سے ہوا جو یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں مقدس مقام ہے۔
دریں اثناء فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے عرب اتحاد زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ “عرب مخیّرین کی کوششوں سے غزہ کی تعمیر نو پر کام کریں گے “۔
جمعے کے روز جاری اپنے وڈیو پیغام میں انہوں نے واضح کیا کہ “ہمیں عرب اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلق مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے .. ہم نے دیکھا کہ مشرق سے مغرب تک یہ امت کس طرح بیت المقدس، فلسطین اور مزاحمت کی پشت پر کھڑی ہو گئی”۔
انہوں نے عرب اور اسلامی دنیا پر زور دیا کہ “اب مزید پیوستگی، جوڑ، تبدیلیوں پر غور کرنے اور ایک مربوط حکمت عملی بنانے کر میز پر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم پھر سے ایک امت کے طور پر اپنا توازن واپس حاصل کر لیں”۔
واضح رہے کہ مصر کے توسط سے اسرائیل ور فلسطینی گروپوں کے بیچ غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے نفاذ کا آغاز جعرات اور جمعے کی درمیانی شب 2 بجے سے ہوا۔ یہ فائر بندی 11 روز تک جاری رہنے والی عسکری جارحیت کے بعد سامنے آئی جو 2014ء کی جنگ کے بعد اب تک کی شدید ترین لڑائی قرار دی جا رہی ہے۔ اس دوران میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں واقع ہوئیں جن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہے۔