کیسرو: مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعہ الازھر کے اسکالرز نے ”اسلام پسند علیحدگی” کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کے بیان کو ‘نسل پرستانہ’ اور ‘نفرت انگیز’ تقریر قرار دیا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کی شائع رپورٹ کے مطابق ایمینوئل میکرون نے جمعہ کو فرانس کی سیکولر کے “بنیاد پرست اسلام” کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی جبکہ اس دوران انہوں نے اسلام مخالف بیان بھی دیا۔
اس پر جامعہ الازھر کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے اپنے بیان میں کہا کہ میکرون نے اسلام کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے جن کا اس مذہب کے اصل جوہر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ الازھر دنیا کی سب سے اہم اسلامی تعلیمی درسگاہ اور مصر کا اعلیٰ ترین مذہبی ادارہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘نسل پرستی کے اس طرح کے بیانات سے پوری دنیا میں 2 ارب مسلمان کے جذبات مجروح ہوں گے’ اور تعمیری مکالمے کا راستہ روکیں گے۔
جامعہ الازھر نے کہا کہ ‘اسلام یا دوسرے مذاہب پر اس طرح کی علیحدگی پسندی اور تنہائی پرستی کے جھوٹے الزامات لگانا’ ان مذاہب کی اصل حقیقت کے منافی ہے، مزید یہ اس میں ان کی بھی مذمت کی گئی ‘جو ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی مواد’ کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 2 افراد زخمی
واضح رہے کہ ایمینوئل میکرون کا خطاب صدارتی انتخابات سے 18 ماہ قبل سامنے آیا تھا جہاں انہیں دائیں بازو کی جانب سے سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ فرانس میں سیکیورٹی کے حوالے سے عوام کی تشویش بڑھتی جارہی ہے۔
ایمینوئل میکرون کے خطاب سے کچھ عرصہ گستاخانہ خاکے بنانے کے لیے دنیا بھر میں بدنام متنازع میگزین کے پیرس میں واقع سابقہ دفتر کے باہر ایک شخص نے 2 افراد کو چاقو مار کر زخمی کردیا تھا اور حکومت نے اس واقعے کو ‘اسلامی دہشت گردی’ قرار دیا تھا۔
جمعرات کو جامعہ الازھر کے سب سے بڑے امام احمد الطیب نے مغربی دنیا کے رہنماؤں کی جانب سے ‘تاثرات کی پروا’ کیے بغیر ‘اسلامی دہشت گردی’ کی اصطلاح استعمال کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اس طرح کی اصطلاحات مذہب اور اس کے پیروکاروں کی “توہین” کی حیثیت رکھتی ہیں اور عہدیداروں، عوامی شخصیات اور دانشوروں کو خبردار کیا کہ وہ اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کریں۔
واضح رہے کہ فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون نے فرانس کی سیکولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔
میکرون نے زور دیا تھا کہ اسکول اور مساجد میں انتہا پسند مذہبی تعلیم کے خاتمے کے لیے اس نئی مہم میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
تاہم انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ فرانس کو تارکین وطن کی جماعتوں کو معاشی اور معاشرتی نقل و حرکت مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں اس خلا کو عموماً بنیاد پرست پُر کرتے ہیں۔
یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک کے صدر ایمینوئل میکرون نے پیرس سے باہر تاریخی اعتبار سے تارکین وطن کی بڑی آبادی کے حامل قصبے کیس میوریکس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘انتہا پسند پورے ملک میں نئے مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔
انہوں نے سعودی عرب ، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے، اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں ‘اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد’ کروانا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس مقصد کے لیے ، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر روک لگائے گی۔
میکرون نے زور دے کر کہا تھا کہ یہ اقدامات فرانس کے مسلمانوں کو بدنام کرنے یا ان سے دور کرنے کے لیے نہیں بلکہ “مل کر رہنے کی ہماری صلاحیت” کو تقویت دینے کے لیے ہیں۔