اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کے خلاف آلِ سعود کی تاریخ بھیانک، بہیمانہ ، وحشیانہ ، سنگين جرائم اور سیاہ کارناموں سے مملو ہے۔ جنت البقیع کی شہادت آل سعود کی ازواج رسول(ص) ،اولاد رسول اور اصحاب رسول سے کھلی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آلِ سعود کی تاریخ اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کے خلاف بھیانک، بہیمانہ ، وحشیانہ ، سنگين جرائم اور سیاہ کارناموں سے مملو ہے۔ جنت البقیع کی شہادت آل سعود کی ازواج رسول(ص) ،اولاد رسول اور اصحاب رسول سے کھلی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنت البقیع کی موجودہ شکل مسمار شدہ ہے۔ اِس تاریخی مقام کو سن 1925 (یا 1926) میں آلِ سعود کے مغرب نواز فرمانروا شاہ عبدالعزیز ابنِ سعود کے حکم پر شہیدکیا گیا تھا۔ جنت البقیع ایک قبرستان ہے جس میں ازواج رسول (ص) ، آل رسول علیہم السلام اور اصحابِ رسول رضی اللہ تعالی عنہم کی قبور ہیں۔ آلِ سعود حکمراں وہابیت کے پیروکار ہیں جس کے مطابق قبور کی زیارت کرنا شرک و بدعت میں شمار ہوتا ہے۔ اس عقیدہ کے متضاد مسلم ممالک اہلِ بیت علیہم السلام و اصحابِ رسول رضی اللہ تعالی عنہم کی قبور کا احترام کرتے ہیں۔ چنانچہ زیارتِ قبور کے سلسلہ کو سعودی حکمرانوں نے طاقت کے زور پر روکا اور جنت البقیع کو منہدم کر دیا۔
جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع ہے ۔جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344 ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کردیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیاگیا، یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشور اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ ان قبور کی تعمیر نو کے لئےایک بین الاقوامی تحریک قائم کریں اور آل سعود کے بھیانک اور سیاہ کارناموں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہیں۔ اس روحانی ،معنوی اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے عظیم قبرستان کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں اور اس کی حفاظت اور تعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون شخصیات اورہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جاسکے۔۸شوال 1344 ہجری قمری مطابق 1926 عیسوی کی تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے جب 1344 ہجری قمری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو شہید، منہدم و مسمار کردیا تھا۔ یہ دن تاریخ اسلام میں یوم الہدم کے نام سے معروف ہے، وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو شہید کر کے اسے خاک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔
تاریخ اسلام کے مطابق مغربی طاقتوں کی ایما پر خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔ اِس مرتبہ بھی انھوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ تمام تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان “جنت المعلی” اور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آبائی گھر کو گرا دیا۔ (وہابیوں نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے سرزمینِ حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔) اس قبیح فعل کے ردِ عمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ متحدہ ہندوستان میں آلِ سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران عراق مصر انڈونیشیا اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں جن محترم و بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ (س) حضرت خدیجہ بنتِ خویلد (س) حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت عبدالمطلب (ع) شامل ہیں۔ جبلِ احد پر حضرت حمزہ (ع) اور دوسرے شہدا اور جدہ میں حضرت بی بی حوا (س) کی قبریں بھی آلِ سعود کے وحشانہ عقیدے کا نشانہ بنیں۔ اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی ڈھا دیے گئے جن میں حضرت علی (ع) سیدہ فاطمہ زہرا (ع) اور حضرت حمزہ (ع) کے گھر شامل ہیں۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دخترِ رسول حضرت فاطمہ زہرا (س) امام حسن (ع) امام زین العابدین (ع) امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔ فرزندِ رسول حضرت ابراہیم (ع) ازواجِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ حضرت فاطمہ بنتِ اسد (س) حضرت ام البنین (س) حضرت حلیمہ سعدیہ (س) حضرت عثمان (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) کی قبور کی اونچائی کو ختم کر دیا گیا۔ موجودہ جنت البقیع میں قبریں دُور سے مٹی کے ٹیلے دکھائی دیتی ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے پتھر اُبھرے ہوئے ہیں۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیونکہ آج بھی سرزمین حجاز (سعودی عرب) پر آلِ سعود قابض ہیں۔
آلِ سعود کی سرپرستی میں مقدسات کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ حج و عمرہ کی کمائی سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ حجاج اور زائرین کو رہائش فراہم کرنے کی غرض سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے آس پاس تعمیرات جاری ہیں۔ دورِ نبوی کے تعمیر شدہ کنویں اور پُل ختم کر دیے گئے ہیں۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ (ع) کے گھر کی جگہ مکہ ہوٹل تعمیر کیا گیا اور زوجہ رسول حضرت خدیجہ (س) کا گھر منہدم کر کے پبلک ٹوائیلٹ بنا دیے گئے ہیں۔ حضرت ابو بکر (رض) کی رہائش کی جگہ ہلٹن ہوٹل نے لے لی ہے۔ بلند و بالا مکہ کلاک ٹاور خانہ کعبہ کے عین قُرب میں تعمیر کیا گیا ہے جس کی پانچ منزلوں پر شاپنگ سنٹرز اور لگژری ہوٹلز ہیں۔ مستقبل قریب میں اسی طرز پر مزید ہوٹلز تعمیر کیے جائیں گے جن کی آمدنی سے سعودی حکمران امریکہ سے مزید ہتھیار خرید سکیں گے۔ آلِ سعود نے مکہ مکرمہ کو اقوام متحدہ کے ادارے کی “تاریخی ورثہ عمارات” میں بھی اسی وجہ سے شامل نہیں کیا تاکہ دنیا کو پتہ نہ چل سکے کہ یہاں کے تاریخی مقامات کو کتنی تیزی سے ختم کیا جارہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سعودی عرب کی بھیانک اور گہری سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور آج سعودی عرب کے مغرب نواز حکمراں عراق و شام و لیبیا میں تباہی پھیلانے کے بعد یمن کے نہتے مسلمانوں کو گذشتہ تین برسوں سے اپنی بربریت اور جارحیت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آل سعود کو آج بھی اس سلسلے میں امریکہ اور اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے ۔