اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے قطر کے ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی خاتون صحافی جاں بحق ہوگئیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی’رائٹرز‘ کے مطابق الجزیرہ میں کام کرنے والی خاتون صحافی شیریں ابوعاقلہ سرائیلی فورسز کی گولی کا نشانہ بنیں، واقعے کی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون صحافی کو سر میں گولی لگی ہے۔
ایک فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ وہ جنین شہر میں اسرائیلی فوج کے آپریشن کی کوریج کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ’قتل‘ ہوئیں، حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد میں اضافے کے بعد فوج کے چھاپوں میں شدت آئی ہے۔
فلسطین کی وزارت صحت نے شیریں ابوعاقلہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اور صحافی علی سمودی جو کہ یروشلم کی قدس اخبار کے لیے کام کرتے ہیں وہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم اسرائیلی فوج نے اپنے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ جینن شہر میں فلسطینی مسلح افراد کی جانب سے فائرنگ کے بعد فوجی اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی اور یہ ممکن ہے کہ صحافیوں کو فلسطینی مسلح افراد کی گولیاں لگی ہوں۔
خاتون صحافی کے ساتھیوں اور دوستوں نے اُن کی موت پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے صحافت کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
دوسری جانب جاں بحق ہونے والی خاتوں صحافی کے ساتھ کام کرنے والی ایک صحافی ندا ابراہیم نے کہا ہے کہ شیریں ابوعاقلہ قابل احترام صحافی تھیں جو سال 2000 میں شروع ہونے والے دوسرے فسلطینی انتقاضہ سے لے کر آج تک الجزیرہ کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسا آپ تصور کر سکتے ہیں یہ ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کے لیے ایک بری خبر ہے۔
خاتون صحافی کے جاں بحق ہونے کے بعد انسانی حقوق کے کارکنان، ساتھی صحافیوں اور سیاستدانوں نے ٹوئٹر پر ان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اظہار تعزیت کیا ہے۔
برطانیہ میں فلسطینی سفارت کار حسام زوملوٹ نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ابوعاقلہ معروف فسلطینی صحافی تھیں اور وہ ان کی قریبی دوست تھیں۔
فسلطینی امریکی کارکن حویدہ عراف نے مطالبہ کیا ہے کہ خاتون صحافی کے قتل پر اسرائیل کو جواب دینا ہوگا۔
پاکستانی صحافی حامد میر نے بھی خاتون صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔