دو جنوری دو ہزار سولہ کو سعودی عرب میں سرکردہ عالم دین آیت اللہ نمر باقر النمر کو حکمران آل سعود پر تنقید کے جرم میں سزائے موت دے کر شہید کر دیا گیا تھا جس کی ساری دنیا کے مسلمانوں نے شدید مذمت کی تھی۔
رائے عامہ کے وسیع اعتراضات اور مظاہروں کے درمیان سرزمین حجاز کے ایک عظیم عالم دین کو انسانی اور اسلامی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں سزائے موت دے دی گئی تھی لیکن مغربی ممالک کی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نیز خطے کے ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے اس ہولناک سانحے پر خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔
آیت اللہ نمر کی سزائے موت پرعملدرآمد کو سعودی عرب میں شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد مخالفین کو سرکوب کرنے کی دیرینہ پالیسی اور انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ نمر کو ایسے وقت میں سزائے موت دی گئی تھی جب شاہ سلمان اپنے بیٹے بن سلمان کی جانب سے کیے جانے والے بعض نمائشی اقدامات کے ذریعے خود کو اصلاح پسند شخص کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ سعودی عرب میں شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے عوام کی سرکوبی، اجتماعی سزائے موت اور انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
بین الاقوامی قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ آیت اللہ نمر باقر النمر کو بے بنیاد الزامات اور محض سعودی حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے گرفتار اور غلط طور پر سزائے موت دی گئی ہے۔
اندرون ملک مخالفت کی آوازوں کو دبانے کے لیے بے بنیاد الزامات کے تحت مخالفین کو سزائے موت دینا اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بیرون ملک مقیم مخالفین کو ٹھکانے لگانا سعودی حکام کا دیرینہ ہتھکنڈہ رہا ہے۔
یہ وہ صورت حال تھی کہ جس میں فروری دو ہزار گیارہ میں سعودی عرب کے شیعہ آبادی والے علاقے قطیف وسیع عوامی مظاہروں کے بعد جنوری دو ہزار بارہ میں آیت اللہ نمر باقر النمر کو گرفتار کیا گیا اور پندرہ اکتوبر دو ہزار پندرہ کو شاہی حکومت کی نمائشی عدالت نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کر کے تلوار سے گردن مارنے کا حکم دیا تھا۔
آل سعود کے خود سرانہ اقدامات نے سعودی عرب کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز بنا دیا ہے اور اس حکومت کے اقدامات صرف ملک کے اندر ہی محدود نہیں بلکہ اس حکومت کی کوکھ سے جنم لینے والے وحشی ترین سلفی اور تکفیری گروہوں نیز بیرون ملک مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے قائم کیے جانے والے ڈیتھ اسکواڈ کے شرمناک اقدامات کا ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے۔
سن دو ہزار اٹھارہ میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کا بہیمانہ طریقے سے قتل، مخالفین کے خلاف آل سعود کی منظم اور ریاستی دہشت گردی کی تازہ مثال ہے۔
بلا شبہ آیت اللہ نمر کی سزائے موت کے معاملے میں خطے کے ممالک اور بعض مغربی ملکوں کی خاموشی اور رضامندی کے نتیجے میں آل سعود کو اپنے مجرمانہ اقدامات جاری رکھنے کا موقع ملا ہے۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ مخالفین اور فعال سیاسی لوگوں کو پھانسیاں دینے اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ٹھکانے لگانے کے حوالے سے انتہائی خراب ریکارڈ کے باوجود حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن بھی منتخب کیا گیا جسے بلا شبہ تاریخ کا سب سے بھونڈا مذاق کہا جا سکتا ہے۔