ايودھيا اس شہر کا نام پوری دنیا بابری مسجد کی مسماری کے لئے جانا جاتا ہے.یہ واقعہ قریب 24 سال پہلے ہوا تھا۔ اب ایک اور بڑا واقعہ یہاں ہونے جا رہا ہے، لیکن یہ اس واقعہ سے بالکل مختلف ہے. بابری مسجد کا انہدام جہاں دو فرقوں کے درمیان رشتوں کو تلخ بنا گیا تھا. وہیں، اب یہی شہر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی نئی مثال لکھنے جا رہا ہے. یہاں کے مشہور ہنومان گڑھی کی زمین پر 300 سال پرانی مسجد دوبارہ بنے گی.
فیض آباد میونسپل نے 17 ویں صدی میں بنی عالمگیری مسجد کو خطرناک قرار دے دیا تھا. اس مسجد کو مغل بادشاہ اورنگزیب کے ایک سپاہ سالار نے بنوایا تھا. جس زمین پر مسجد تھی، اسے اودھ کے نواب شجاع الدولہ نے سال 1765 میں هنومان گڑھی مندر کو عطیہ کے طور پر دی تھی۔. شرط یہی تھی کہ مسجد میں مسلم نماز پڑھ سکیں گے. تبھی سے مندر کی زمین پر ہونے کے باوجود عالمگیری مسجد میں نماز ادا ہو رہی تھی. پرانی ہونے کی وجہ سے جب مسجد منہدم ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی تو نماز بھی بند ہو گئی. اب نگر پالیکا کے عمارت کوخطرناک اعلان ہونے کے بعد هنومان گڑھی مندر کے مہنت گیان داس نے مسلمانوں کو دوبارہ مسجد تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے.
اس بارے میں مہنت گیان داس کا کہنا ہے کہ انہوں نے مسجد کو دوبارہ بنانے کے لئے مسلمانوں سے کہا ہے. خاص بات یہ بھی ہے کہ مسجد کو دوبارہ بنانے میں خرچ ہونے والا پیسہ هنومان گڑھی مندر سے دیا جائے گا. مہنت کے مطابق مندر کی طرح مسجد بھی خدا کا گھر ہوتی ہے. اس کے علاوہ زمین پر موجود ایک قبر کی حالت بہتر بنانے کے لئے بھی فنڈز دیا جائے گا. بتایا جا رہا ہے کہ قبر بھی مسجد جیسی پرانی ہے.
١٧٦٤ میں بکسر کی جنگ کے بعد نواب شجا ع الدولہ فیض آباد سے دارالحکومت کو لکھنؤ لے گئے تھے. فیض آباد میں رہنے کے دوران انہوں نے هنومان گڑھی مندر بنانے کے لئے زمین عطیہ دی تھی. زمین جب کم پڑی تو مندر کے مہنت ان سے ملنے لکھنؤ گئے تھے. اس وقت نواب نے اس چار بیگھہ زمین کو مندر کو عطیہ دیا، جس پر عالمگیری مسجد بنی ہوئی تھی.